الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
۳ - خروج الخبر عن مقتضی الظاھر الامثلۃ (مثالیں) (۱)اللہ تعالی کا ارشاد ہے وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلاَ تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ (ھود ۳۷) ــــــــــــــ اے نوح! بیشک آپ مجھ سے ان ظالموں کے بارے میں بات نہ کریں، یقینا یہ لوگ غرق کئے جائیں گے۔ (۲) اللہ تعالی کا ارشاد ہے وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ (یوسف ۵۳) ــــــــــــــ میں اپنے نفس کو بری نہیں کہتا ہوں، بیشک نفس تو برائی کا بہت زیادہ حکم دیتا ہے۔ (۳) حجل بن نضلہ قیسی نے کہا ہے ؎ جَاءَ شَقِیْقٌ عَارِضًا رُمْحَہهُ إِنَّ بَنِي عَمِّكَ فِیْھِهِمْ رِمَاحُ ترجمہ:- بیشک شقیق اپنے نیزے کو عرض میں رکھے ہوئے آیا، بیشک تیرے چچا زاد بھائیوں کے پاس بھی نیزے ہیں۔ (۴) اللہ تعالی اپنی وحدانیت کے منکرین سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں وَإِلٰھهُکُمْ إِلٰہهٌ وَاحِدٌ (بقرہ ۱۶۳) ــــــــــــــ تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے۔ (۵) اَلْجَھهْلُ ضَارٌّـــــــــــــجہالت نقصان دہ ہے -- (یہ بات اس سے کہیں جو جہالت کے نقصان کا منکر ہے۔)البحث (مثالوں کی وضاحت) گذشتہ باب میں ہم نے جان لیا کہ مخاطب اگر خالی الذھن ہے تو اس کے سامنے خبر بغیر تاکید کے پیش کی جائے گی اور اگر مخاطب کو خبر کے مضمون میں تردد ہے اور اس کو خبر جاننے کی طلب ہے، تو اس کے سامنے خبر کو تاکید کے ساتھ لانا بہتر ہے، اور اگر مخاطب خبر کا منکر ہے تو تاکید لانا واجب وضروری ہے، -- اور کلام کو اس طریقہ پر پیش کرنا یہی کلام کو مقتضائے ظاہر کے مطابق لانا ہے، ــــــــــــــ لیکن کبھی کبھی ایسی وجوہات پائی جاتی ہیں جو کلام كو اس مقتضائے ظاہر کے خلاف لانے کا تقاضا کرتی ہیں، اوپر دی گئی مثالوں میں ہم اسی کی وضاحت کررہے ہیں۔