الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
بہاتے ہیں محبین پر، پس وہ دعا کررہا ہے کہ بارش کی یہ قسم (فراق) اللہ تعالی اسکے اردگرد کردے، اور اسکو اس میں سے کچھ نہ پہنچے۔ (۶) یہاں بلیغ کا حسن کردار یہ ہے کہ اس نے آیت کو اپنے موضوع سے منتقل کردیا ــــــــــــ اور وہ بے ایمانوں کی بات ہے جو دلالت کرتی ہے ان کے بعث، حشر اور حساب سے مایوس ہونے پر، ــــــــــــ ایک انتہائی بخیل کی حالت بیان کرنے کی طرف، اور اس طرف کہ بخیل کی عطا سے ایسی ہی مایوسی ہے جیسے کفار کو مایوسی ہے قبر والوں سے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مذمت میں انتہائی مبالغہ ہے۔التمرین - ۲ وحله آنے والی آیتوں میں عمدہ اور مضبوط اقتباس کیجئے۔ (۱) تَنَافَسُوْا فِي الْإحْسَانِ وَدَعُوا الْفَخْرَ بِکَرَمِ الْأُصُوْلِ وَالْأَجْدَادِ ( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) ــــــــــــ احسان میں ایک دوسرے کی ریس کرو، اور آباؤ اجداد کی سخاوت پر فخر چھوڑدو، بے شک تم میں معزز اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ تقوی والا ہے۔ (۲) رُبَّ حَقُودٍ یَنْصِبُ لِأَخِیْہهِ أَشْرَاکًا لِخَتْلِہهِ (وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ إِلَّا بِأَهْھلِہهِ) ــــــــــــ بہت سے کینہ ور اپنے بھائی کے لئے جال بنتے ہیں اسکو دھوکا دینے کے لئے، اور برا مکر تو کرنے والے پر ہی اترتا ہے۔ (۳) اَلْعَالِمُ سِرَاجُ هٰھذِهِ الْأُمَّةِ وَالْجَاهِھلُ مَصْدَرُ الْبَلَاءِ وَالْغُمَّةِ وَإِذَا افْتَخَرَ الْجُهَّھالُ بِالْمَالِ الَّذِيْ یَکْنِزُوْنَ فَقُلْ ( هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ) ــــــــــــــ عالم اس امت کا چراغ ہے، اور جاہل مصیبت وگھٹن کا سر چشمہ ہے، جب جاہل اپنے ذخیرہ کردہ مال پر فخر کرے تو کہو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ (۴) وَصَفَ ابْنُ بَطُوْطَہةَ فِی رِحْلَتِہهِ بِلَادًا کَثِیْرَةً وَعَادَاتٍ غَرِیْبَةًۃ وَصَوَّرَ مَا رَأٰی خَیْرَ تَصْوِیْرٍ (وَلَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ) ــــــــــــــ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں بہت سے ملکوں کا حال اور عجیب وغریب عادات کا حال بیان کیا ہے، اور اپنی دیکھی ہوئی چیزوں کی بہترین منظر کشی کی ہے، اور جان کار جیسی بات