الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۳) دو مثالیں ایسی لائیں جن میں خبر تاکید سے خالی ہو، اور مقتضائے ظاہر کے خلاف ہو، اور دونوں مثالوں میں مقتضائے ظاہر کے خلاف ہونے کی وجہ بھی واضح کریں۔ (الف) اَلْعِلْمُ أَفْضَلُ مِنَ الْمَالِ ــــــــــــــ علم مال سے افضل ہے (یہ بات اس سے کہیں جو اس کے برعکس سمجھتا ہو)۔ (ب) اَلطِّبَاعُ تَتَغَیَّرُ ــــــــــــــ طبیعتیں بدلتی رہتی ہیں (یہ بات اس سے کہیں جو تغیر طباع کا منکر ہو)۔ مخاطب دونوں مثالوں میں خبر میں موجود حکم کا منکر ہے، تو مقتضائے ظاہر خبر کو اس کے سامنے وجوباً تاکید کے ساتھ پیش کرنا تھا، لیکن متکلم نے مخاطب کے انکار کی کوئی پرواہ نہیں کی، اور اس کے سامنے خبر تاکید سے خالی پیش کی، کیونکہ مخاطب کے سامنے ایسے دلائل وشواہد ہیں کہ اگر وہ ان میں غور وفکر کرے تو انکار کو چھوڑدے، (اسی لئے اس انکار کا کوئی اعتبار نہیں کیا) اور خبر مقتضائے ظاہر کے خلاف آئی۔التمرین - ۳ وحلہ عَنْتَرَہْ کے شعر کی تشریح کریں اور اس میں خبر کی تاکید لانے کی وجہ بیان کریں۔ بنوعبس خاندان کی خوبی اللہ ہی کے لئے ہے، انہوں نے ایسے باکمال افراد جنم دئے کہ بڑے عرب بھی کبھی کبھی ایسے افراد پیدا کرتے ہیں۔ شعر کی شرح:- شاعر کہتا ہے کہ میں بنو عبس کی تعریف کرتا ہوں اور میں تعجب کرتا ہوں ان کی بھلائی اور ان کی سرداری پر اس لئے کہ انہوں نے بڑے سرداروں کو جنم دیا ہے، جنہیں بڑے عرب بھی نہیں جنم دیتے ہیں۔ شعر میں تاکید:- مقتضائے ظاہر کا تقاضا یہ تھا کہ خبر تاکید سے خالی ہوتی، اس لئے کہ مخاطب حکم سے خالی الذھن ہے، لیکن متکلم نے جب اپنی بات ’’لِلہهِ دَرُّبَنِيْ عَبَسٍ‘‘سے شروع کی، اور یہ جملہ تعریف پر دلالت کررہا ہے تو مخاطب اس مدح کی نوع کا منتظر ہوگیا (کہ شاعر پتہ نہیں کیا تعریف کرے گا، کرے گا بھی یا نہیں) پس اس لئے مخاطب کو طالب متردد کے درجہ میں اتار دیا گیا، اور مقتضائے ظاہر کے خلاف خبر اس کے سامنے استحساناً (نہ کہ وجوباً) تاکید کے ساتھ پیش کی گئی، اور اس سے کہا گیا ’’ لَقَدْ نَسَلُوْا مِنَ الْأَکَارِمِ مَاقَدْ تَنْسِلُ الْعَرَبُ‘‘ ٭٭٭