الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
کی کتنی اچھی جگہ ہے۔ (۷) جاحظ نے اپنی کتاب سے یہ کہا ہے ؎ أَمَّا بَعْدُ! فَنِعْمَ الْبَدِیْلُ مِنَ الزَّلَّةِ الاِعْتِذَارُ ، وَبِئْسَ الْعِوَضُ مِنَ التَّوْبَةِ اَلْإِصْرَارُ، ــــــــــــ بہرحال حمد وصلوۃ کے بعد! لغزش کا نعم البدل معذرت کرنا ہے، اور توبہ کا برا بدلہ گناہ پر اصرار کرنا ہے۔ (۸) عبد اللہ بن طاہر نے کہا ہے ؎ لَعَمْرُكَ مَابِالْعَقْلِ یُکْتَسَبُ الْغِنٰی وَلَا بِاکْتِسَابِ الْمَالِ یُکْتَسَبُ الْعَقْلُ ترجمہ:- تیری زندگی کی قسم! عقل کے ذریعہ مالداری حاصل نہیں کی جاسکتی ہے، اور نہ مال کے ذریعہ عقل حاصل کی جاسکتی ہے۔ (۹) ذو الرُّمہَّ شاعر نے کہا ہے ؎ لَعَلَّ انْحِدَارَ الدَّمْعِ یُعْقِبُ رَاحَةً مِنَ الْوَجْدِ أَوْیَشْفِي شَجِیَّ الْبَلَابِلِ ترجمہ:- شاید آنسو بہہ جانے کے بعد غم سے راحت مل جائے، یا غم میں مبتلا شخص کو تشفی حاصل ہوجائے۔ (۱۰) کسی شاعر کا شعر ہے ؎ عَسٰی سَائِلٌ ذُوْ حَاجَةٍ إِنْ مَنَعْتَہهُ مِنَ الْیَوْمِ سُؤْلًا أَنْ یَکُوْنَ لَہهُ غَدٌ ترجمہ:- اگر ضرورت مند سائل کو آج تم نے سوال سے منع کردیا تو ممکن ہے کل کا دن اس کا ہو (یعنی کل اس کی حالت بدل جائے اور تم محتاج ہوجاؤ)۔البحث (مثالوں کی وضاحت) گذشتہ تمام مثالیں جملہ انشائیہ کی ہیں، اس لئے کہ ان میں صدق وکذب کا احتمال نہیں ہے، جب آپ ان تمام مثالوں میں غور کریں گے تو یہ مثالیں دو طرح کی پائیں گے ، ایک قسم کی مثالوں میں ایسی چیز کے حصول کو طلب کیا جارہا ہے جو طلب کے وقت حاصل نہیں تھی، اسی لئے انشاء ان میں طلبی ہے، اور دوسری قسم کی مثالوں میں کوئی چیز طلب نہیں کی جارہی ہے، اسی لئے ان میں جو انشاء ہے اس کا نام انشاء غیر طلبی ہے۔ پہلی قسم کی مثالوں کی انشاء طلبی میں آپ غور کریں، تو آپ محسوس کریں گے کہ کبھی انشاء امر کے ذریعہ ہے،