الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(ج) استفہام یہاں تعظیم کے لئے ہے، اس لئے کہ شاعر بادشاہ سے ناواقف نہیں ہے، بلکہ وہ اس کی بڑائی اور تعظیم کا ارادہ کرتا ہے، اسی لئے اس کو باتوں کے نافذ ہونے کے ساتھ متصف کرتا ہے (کہ تمہاری باتیں مانی جاتی ہیں) اور اس کو قوت وشوکت والے یمن کے تبع بادشاہ کے ساتھ تشبیہ دے رہا ہے۔جواب نمبر ۲ (الف) استفہام یہاں توبیخ کے لئے ہے، اس لئے کہ متکلم اپنے مخاطب کو خوبی کے انکار اور احسان فراموشی پر زجر وتوبیخ کرنا چاہتا ہے۔ (ب) استفہام یہاں تعجب کے لئے ہے، اس لئے کہ شاعرہ اپنے ساتھ اپنے بیٹے کے رویہ پر تعجب کررہی ہے، کہ وہ اس پر سختی کرتا ہے، اور بڑھاپے کی عمر میں اس میں ادب تلاش کررہا ہے، اور وہ خود مال کا حق ادا نہیں کررہا ہے، اور نہ اس کی عمر کا لحاظ کرتا ہے، یقینا اس کی یہ حالت تعجب کے لائق ہے۔ (ج) استفہام یہاں تمنی کے لئے ہے، اس لئے کہ ابو العتاہیہ شاعر دوسرے شعر میں تمنا کررہا ہے کہ کاش امین اس ظلم سے باز آجائے اور پھر اس کے ساتھ مہربانی اور نرمی برتنے لگے جیسے کہ وہ خوشنودی کے دنوں میں کیا کرتا تھا۔التمرین - ۵ آنے والی مثالوں میں استفہام سے کیا معنی مراد ہے؟ (۱) متنبی کا شعر ہے ؎ پرانے زمانے سے دنیا کا کون عاشق ودیوانہ نہیں رہا ہے؟ لیکن اس معشوقہ (دنیا) کے وصال کا کوئی راستہ نہیں ہے، (آج تک کسی کے ساتھ اس نے وفا نہیں کی)۔ (۲) اسی شاعر کا شعر ہے ؎ مجھے بلندیاں حاصل کرلینے کے بعد کوئی پرواہ نہیں ہے اس کی کہ جو بلندیاں میں نے حاصل کی ہیں وہ وراثت میں مجھے ملی ہیں یا میں نے کسب ومحنت کرکے حاصل کی ہیں۔ (۳) اور اسی کا شعر ہے ؎