الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
حل تمرین - ۱ (۱) ادیبوں کے یہاں مشہور یہ ہے کہ ’’غُرَّۃةُ الْمُهْھرِ‘‘ (سرخ گھوڑے کی پیشانی کی سفیدی) کو صبح سے تشبیہ دی جائے، کیونکہ وجہ شبہ’’ صبح ‘‘ میں ’’غُرَّۃةُ الْمُهْھرِ‘‘ کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے، لیکن شاعر نے مشہور طریقہ سے ہٹ کر مبالغہ پیدا کرنے کے لئے تشبیہ کو پلٹ دیا۔ (۲) اس شعر میں شاعر حقیقت میں گلاب کی سرخی کو محبوبہ کے رخسار کی سرخی سے، اور شاخ کی لچک کو اس کے قد کی لچک سے تشبیہ دینا چاہتا ہے، اور بلاشبہ ان دونوں میں سے ہر ایک تشبیہ مقلوب ہے، اس لئے کہ شعراء کے یہاں معروف ہے کہ رخسار کو گلاب سے سرخی میں، اور قد وقامت کو شاخ سے لچک میں تشبیہ دی جائے۔ (۳) شعراء کی عادت ہے کہ وہ ہاتھ کو نالے سے کثرت تدفق (زیادہ اچھلنے) میں تشبیہ دیتے ہیں، چنانچہ ہاتھ احسان وعطیہ کے ساتھ اچھلتا ہے، اور نالا پانی کے ساتھ اچھلتا ہے، لیکن ہم یہاں دیکھ رہے ہیں کہ بحتری نے مقلوب تشبیہ لاتے ہوئے تالاب اور اس کی اچھال کو متوکل کے ہاتھ سے تشبیہ دی ہے۔ (۴) یہاں بحر کو ممدوح کی سخاوت سے تشبیہ دی گئی ہے کثرت اور زیادتی میں، اور بدر کامل کی روشنی کو ممدوح کے چہرے کے جمال سے تشبیہ دی گئی ہے، بلاشبہ یہ دونوں تشبیہ مقلوب ہیں، اس لئے کہ معروف طریقہ یہ ہے کہ سخاوت کو سمندر سے، اور چہرے کی خوبصورتی کو بدر کامل کی روشنی سے تشبیہ دی جائے اس لئے کہ وجہ شبہ بحر اور بدر کے نور میں زیادہ قوی اور نمایاں ہے۔التمرین - ۲ آنے والی مثالوں میں تشبیہ مقلوب وغیر مقلوب میں امتیاز کریں، اور ہر تشبیہ کی غرض بیان کریں۔ (۱) گویا کہ رات کی سیاہی بہت ہی کالا بال ہے۔ (۲) اور ابو الطیب نے کہا ہے ؎ وہ دشمنوں سے گرد وغبار کے آسمان میں ملاقات کرتا ہے، اس کے نیزوں کی دونوں جانب میں ستارے ہیں۔ (۳) گویا کہ تیر اس کا کلام ہے، اور موسلادھار بارش اس کی عطا ہے۔ (۴) ابیوردی شاعر نے کہا ہے ؎