الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
القصر - تعریفہ - طرقہ - طرفاہٗ قصر، اسکی تعریف، اسکے طریقے، اور اسکے طرفین کا بیان الامثلہ (مثالیں) (۱) لَایَفُوْزُ إِلَّا الْمُجِدُّ ــــــــــــ محنتی ہی کامیاب ہوتا ہے۔ (۲) إِنَّمَا الْحَیَاۃةُ تَعَبٌ ــــــــــــ زندگی محض ایک تھکان کا نام ہے۔ (۳) اَلْأَرْضُ مُتَحَرِّ کَةٌ لَاثَابِتَةٌ ــــــــــــ زمین متحرک ہے، ٹھہری ہوئی نہیں ہے۔ (۴) مَاالْأَرْضُ ثَابِتَةً بَلْ مُتَحَرِّ کَةٌ ــــــــــــ زمین ٹھہری نہیں ہے بلکہ متحرک ہے۔ (۵) مَا الْاَرْضُ ثَابِتَةً، لٰکِنْ مُتَحَرِّ کَةٌ ــــــــــــ زمین ٹھہری ہوئی نہیں ہے بلکہ حرکت کررہی ہے۔ (۶) عَلَی الرِّجَالِ الْعَامِلِیْنَ نُثْنِي ــــــــــــ کام کرنے والےآدمیوں کی ہی ہم تعریف کرتے ہیں۔البحث (مثالوں کی وضاحت) جب آپ گذشتہ مثالوں میں غور کریں گے تو ہر مثال میں ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خاص کرنا پایا جارہا ہے، چنانچہ پہلی مثال میں کامیابی کو خاص کیا ہے محنتی کے ساتھ، مطلب کامیابی محنتی کے ساتھ خاص ہے، اسکے علاوہ کی طرف تجاوز نہیں کرتی ہے، ــــــــــــ دوسری مثال میں زندگی کو تھکان کے ساتھ خاص کیا ہے، مطلب یہ کہ زندگی تھکان پر ٹھہری ہوئی ہے، وہ تھکان سے جدا نہیں ہوسکتی ہے راحت کی طرف، اسی طرح باقی مثالوں میں سمجھ لو۔ اگر آپ کلام میں تخصیص کا منشا سمجھنا چاہتے ہیں، تو آپ ان مثالوں میں تھوڑا غور کریں، پس پہلے مثلاً آپ پہلی مثال لیجئے، اور اس سے نفی اور استثناء کے حروف حذف کردیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تخصیص بالکل ختم ہوگئی، گویا تھی ہی نہیں، تو پتہ چلا کہ نفی اور استثناء ہی اس مثال میں تخصیص کا سبب وذریعہ ہیں، اسی طرح باقی مثالوں میں بھی آپ جان سکتے ہیں کہ ان میں تخصیص کے ذرائع ’’انما‘‘ لا، بل اور لکن کے ذریعہ عطف، اور تقدیم ماحقہ التاخیر (یعنی جسکو مؤخر کرنا چاہیے اسکو مقدم کردینا) ہیں، اور ان ذرائع سے ہونے والی تخصیص کو علماء معانی ’’قصر‘‘ کہتے ہیں، اور ان وسائل وذرائع کو ’’طرق قصر‘‘ قصر کے طریقے کہتے ہیں۔