الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
المدح بما یشبہه الذم‘‘ کی پہلی قسم ہے۔ (۲) یہاں شاعر اپنے ممدوحین کے چہروں کے لئے مدح کی صفت ثابت کررہا ہے، اسکے بعد حرف استدراک ’’لکن‘‘ لایا جس نے وہم پیدا کیا کہ وہ مدح کے بعد کوئی ذم کی صفت لائے گا، لیکن وہ نہیں لایا بلکہ دوسری صفت ِمدح لایا، پس کلام ’’ تاکید المدح بما یشبہه الذم‘‘ کی دوسری قسم ہے۔ (۳) شعر کا شروع حصہ مخاطبین سے تمام عیوب کی نفی کررہا ہے، تو یہ مدح کا فائدہ دے رہا ہے، اور شعر کا آخری حصہ بھی مدح پر دلالت کررہا ہے، لیکن ایسے اسلوب میں اسکو بنایا ہے جسکو مذمت میں سننے کے لوگ عادی ہیں، پس’’ کلام تاکید المدح بما یشبہه الذم‘‘ کی پہلی قسم ہے۔ (۴) شروع کلام مدح ہے، اور اس سے مدح کی دوسری صفت کا استثنا کیا گیا، پس کلام’’ تاکید المدح بما یشبہه الذم ‘‘کی دوسری قسم ہے۔التمرین - ۲ آنے والی مثالوں میں ’’تاکید الذم بما یشبہه المدح ‘‘ کو واضح کریں، اور اسکی قسم بھی بیان کریں۔ (۱) قوم میں کوئی فضل وکمال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ پڑوس کا حق نہیں جانتے ہیں۔ (۲) کلام بہت زیادہ تعقید والا ہے سوائے اسکے کہ وہ گھٹیا معانی والا ہے۔ (۳) مکان میں کوئی خوبی نہیں ہے مگر یہ کہ وہ تاریک اور تنگ کمروں والا ہے۔حل تمرین - ۲ (۱) متکلم نے شروع کلام میں قوم کی مذمت کی، اسطرح کہ ان سے مدح کی صفت کی نفی کی، پھر اسکے بعد حرفِ استثناء ’’الا‘‘لایا، جس نے سامعین میں وہم پیدا کیا کہ وہ اسکے بعد مدح کی صفت لائے گا، جس سے ان کو سراہے گا، لیکن وہ مذمت کی صفت لایا، وہ یہ کہ وہ لوگ پڑوسی کے حقوق نہیں جانتے ہیں، پس صدرِ کلام مفید ِذم ہے جیسے تم دیکھ رہے ہو، اور کلام کا آخر بھی اسی طرح مفید ذم ہے، لیکن یہ کلام ایسے اسلوب میں ہے جسکو مدح میں سننے کے لوگ عادی ہیں، تو کلام ’’تاکید الذم بما یشبہه المدح‘‘ کی پہلی قسم ہے۔ (۲) متکلم نے شروع میں ذم کی صفت ثابت کرکے مذمت کی، پھر حرفِ استثناء ’’ إِلَّا ‘‘ لایا جس نے