الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اور تیسری مثال میں لفظ ’’قصف‘‘ کے قریبی معنی توڑنا ہیں، اسکی دلیل یہ هے کہ شاعر اس معنی کی تمہید کے لئے ’’فان غصون الزهھر‘‘ لایا ہے، ـــــــــــــ ـــــــــــــ اور اسکے بعید معنی ’’کھیل کود‘‘ ہیں، شاعر نے یہی معنی مراد لیا ہے، جبکہ اس نے اسکو چھپانے کی تدبیر کی، ـــــــــــــ ـــــــــــــ بدیع کی اس قسم کا نام ’’توریہ‘‘ ہے، اور یہ ایسا فن ہے جس میں ساتویں اور آٹھویں صدی میں مصر اور شام کے شعراء نے خوب مہارت حاصل کی، اور اس میں انہوں نے ایسا عجیب ودلکش مفہوم بیان کیا جو ان کی طبیعت کی صفائی وسلامتی اور کلام کے اسلوبوں کو بے ساختہ اختیار کرنے پر ان کے قادر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔القاعدہ (قاعدہ) (۷۱) توریہ: وہ یہ ہے کہ متکلم ایک مفرد لفظ ذکركرے جسکے دو معنی ہوں، ایک قریبی معنی جو ظاہر ہو لیکن مراد نہ ہو، اور دوسرے بعید معنی جو خفی ہو، اور یہی مراد ہو۔التمرین - ۱ آنے والی مثالوں میں توریہ کی مکمل تشریح کریں۔ (ا) سراج الدین وراق نے کہا ہے ؎ سخاوت نے کتنی ہی زبانوں کو کاٹ دیا، جنہوں نے اپنی نظم سے گلوں میں ہار پہنایا تھا، ـــــــــــــ لو میں بھی شاعر ہوں، میرا نام سراج ہے، تم میری زبان کاٹ دو تو میں تمہاری روشنی بڑھا دونگا۔ (۲) اسی شاعر کا شعر ہے ؎ ہائے شرمندگی! میرے اعمال نامے سیاہ ہوگئے، اور نیک لوگوں کے صحیفے چمکدار ہیں۔ اور قیامت میں مجھ سے ایک ڈانٹنے والے نے کہا، کیا کاغذ فروش کے صحیفے ایسے ہوتے ہیں۔ (۳) اور ابو الحسین جزار نے کہا ہے ؎ کیسے میں قصائی کے پیشے کا شکریہ ادا نہ کروں، زندگی بھر حفاظت کے لئے، اور میں کیسے آداب کو ترک کردوں؟ حالانکہ اسی وجہ سے کتے بھی مجھ سے امید رکھتے ہیں، اور اشعار کے ذریعہ بھی میں کمینوں سے امید کرتا ہوں۔ (۴) اور بدر الدین ذھبی نے کہا ہے ؎