الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اب تیسرے شعر کے دوجملوں یعنی ’’یُشَمِّرُ لِلُّجِّ عَنْ سَاقِہهِ‘‘ اور ’’یَغْمُرُهُ الْمَوْجُ فِی السَّاحِلِ‘‘ میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ دونوں جملے خبر کے لحاظ سے متحد ہیں، اور معنی کے لحاظ سے بھی دونوں میں مناسبت ہے، اور یہاں فصل کا تقاضا کرنے والا کوئی سبب بھی نہیں ہے، اسی لئے دوسرے جملے کا پہلے جملے پر عطف کیا گیا، ــــــــــــــ اسی طرح چوتھی مثال بھی ایسے دو جملوں سے بنی ہے جو انشاء کے لحاظ سے متحد ہیں، اور وہ دو جملے’’اَدْنِ اور لَاتُشْهِھدْ‘‘ ہیں، اور ان دونوں جملوں میں معنیً بھی مناسبت ہے، اور یہاں فصل کا متقاضی کوئی سبب بھی نہیں ہے، اسی لئے دوسرے جملے کا پہلے جملے پر عطف کیا گیا، پس ایسے ہی ہر ان دو جملوں میں ــــــــــــــ جو خبر یا انشاء کے اعتبار سے متحد ہوں، اور معنیً دونوں میں مناسبت ہو، اور دونوں میں فصل کا تقاضا کرنے والا کوئی سبب بھی نہ ہو تو ــــــــــــــ وصل واجب ہے۔ اب آپ پانچویں مثال کے دونوں جملے ’’لَا‘‘ اور ’’بَارَكَ اللّٰہهُ فِیْكَ‘‘ کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پہلا جملہ خبریہ ہے، اور دوسرا انشائیہ ہے، اور یہ (بات بھی معلوم ہوگی) کہ اگر آپ دونوں میں فصل کرکے کہیں (یعنی عطف نہ کریں) ’’بَارَكَ اللّٰہهُ فِیْكَ‘‘تو سامع کو وہم ہوگا کہ اسکے لئے بددعا کررہے ہیں حالانکہ آپ اسکے لئے دعا کا ارادہ کررہے ہیں، اسی لئے فصل سے ہٹ کر وصل واجب ہے، ــــــــــــــ اور یہی صورتِ حال ہے آخری مثال کے دونوں جملوں میں، اور ہر ان دو جملوں میں جو خبر یا انشاء کے اعتبار سے متحد ہوں اور ترک عطف ان میں خلاف مقصود کا وہم پیدا کرے، (تو وصل واجب ہوگا)۔القاعدہ (قاعدہ) (۶۴) دوجملوں کے درمیان وصل واجب ہے تین جگہوں میں۔ (الف) جب دونوں جملوں کو اعراب کے حکم میں شریک کرنا مقصود ہو۔ (ب) جب دونوں جملے خبر یا انشاء میں متحد ہوں، اور دونوں میں مناسبت تامہ ہو، اور وہاں فصل کا تقاضا کرنے والا سبب بھی نہ ہو۔ (ج) جب دو جملے خبر یا انشاء کے اعتبار سے مختلف ہوں، اور فصل خلاف مقصود کا وہم پیدا کرے۔