الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۴) اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــــــ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلاَّ كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاء لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ (الرعد: ۱۴) ـــــــــــ اور وہ لوگ جو اللہ کے علاوہ کو پکارتے ہیں، وہ ان کی پکار کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے ہیں، مگر اس شخص کی طرح جو اپنی ہتھیلیوں کو پانی کی طرف پھیلائے تاکہ وہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ پہنچنے والا نہیں ہے۔ (۵) ابو الحسن انباری نے کسی پھانسی دئے ہوئے شخص کے بارے میں کہا ہے ؎ مَدَدْتَ یَدَیْكَ نَحْوَهُمْ اِحْتِفَاءً كَمَدِّهِمَا إِلِیْہهِمْ بِالْہهِبَاتِ آپ نے اپنے ہاتھوں کو ان کی طرف پھیلایا اکرام واعزاز میں مبالغہ کرنے کے لئے، جیسے آپ اپنے ہاتھوں کو ان کی طرف عطیات دینے میں پھیلاتے ہیں۔ (۶) ایک اعرابی نے اپنی بیوی کی مذمت میں کہا ؎ وَتَفْتَحُ لَا كَانَتْ فَمًا لَوْ رَئَیْتَہهُ تَوَهَّمْتَہهُ بابًا مِنَ النَّارِ یُفْتَحُ وہ اپنا منہ کھولتی ہے ـــــــــــ اللہ کرے وہ نہ رہے ـــــــــــ الله كرے وه نه رهے ـــــــــــ اگر آپ اس کے منہ کو دیکھیں گے تو اس کو جہنم کا ایک دروازہ خیال کریں گے جو کھل رہا ہے۔البحث (مثالوں کی وضاحت) پہلے شعر میں بحتری نے اپنے ممدوح کی تعریف میں کہا کہ وہ محتاجوں کے قریب ہے، بلند مرتبہ ہے، سخاوت میں اس کے اور اس کے ہمسروں کے درمیان بہت دوری ہے، لیکن بحتری نے جب یہ محسوس کیا کہ اس نے اپنے ممدوح کی دو متضاد وصفوں سے تعریف کی، یعنی قرب اور بعد یہ دونوں وصف لایا، تو اس نے آپ کے سامنے یہ وضاحت کرنا چاہا کہ یہ بات ممکن ہے، اور اس بات میں کوئی تناقض نہیں ہے، -- تو اس نے اپنے ممدوح کو اس چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی جو آسمان میں بہت دور ہے، لیکن اس کی روشنی رات میں چلنے والوں کے بہت قریب ہے، اور یہ تشبیہ کی ایک غرض اور مقصد ہے یعنی مشبہ کے ممکن ہونے کو بیان کرنا۔ اور نابغہ ذبیانی اپنے ممدوح کو سورج سے تشبیہ دے رہا ہے اور دوسرے بادشاہوں کو ستاروں سے تشبیہ دے رہا ہے اس لئے کہ ممدوح کا بلند رتبہ هر بادشاہ کی بلندی کو پست کردیتا ہے، جیسے سورج ستاروں کو چھپادیتا ہے، پس