الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۱۰) لَاتَمْتَثِلْ أَمْرِي ـــــــــ تم میرے حکم کی تعمیل نہ کرو (یہ بات تم اپنے سے کم درجہ آدمی سے کہو)۔ (۱۱) ابو طیب متنبی کافور کی برائی کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ لَاتَشْتَر ِالْعَبْدَ إِلَّا وَالْعَصَامَعَہهُ إِنَّ الْعَبِیْدَ لَأَنْجَاسٌ مَنَاکِیْدُ ترجمہ:- تم غلام کو نہ خریدو مگر یہ کہ اس کے ساتھ لاٹھی بھی ہو، اس لئے کہ غلام ناپاک اور بہت کم خیر وبرکت والے ہوتے ہیں۔البحث (مثالوں کی وضاحت) اگر آپ مثالوں کا پہلا حصہ دیکھیں گے تو سب ایسے صیغے پرمشتمل ہیں جس سے کسی فعل سے روکنا مطلوب ہے اگر باریک نظر سے دیکھو گے تو سب جگہ روکنے کو طلب کرنے والا جس سے رکنے کو طلب کیا جارہا ہے -- اس سے درجہ میں بڑا ہے، اس لئے کہ پہلے حصہ کی مثالوں میں طالب اللہ تعالی ہیں، اور مطلوب اس کے بندے ہیں، اور یہی نہی کے حقیقی معنی ہیں، اگر آپ نہی کے صیغے میں غور کریں گے تو اس کو ایک طرح پائیں گے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، اور وہ فعل مضارع ہے جو لائے نہی کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ اس کے بعد مثالوں کا دوسرا حصہ دیکھیں، ان میں سب جگہ نہی اپنے حقیقی معنی میں مستعمل نہیں ہے، اور حقیقی معنی ہیں، اعلی درجہ والے کا کم درجہ والے سے کسی فعل سے رکنے کو طلب کرنا، بلکہ یہ نہی چند دوسرے معانی پر دلالت کرتی ہے جن کو سامع سیاق وسباق اور قرائن احوال سے سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ چوتھی مثال میں مسلم بن الولید کا نہی سے مقصد اسلام کی تائید اور کلمۂ اسلام کی سر بلندی کے خاطرخلیفہ ہارون رشید کے لئے دوام وبقا کی دعا کرنا ہے۔ اور پانچویں مثال میں متنبی اپنے خیالی دو ساتھیوں سے یہ درخواست کررہا ہے کہ سیف الدولہ کی بہادری، اور دشمنوں پر حملہ کرنا، اور اس کا لڑائی میں اچھی طرح جنگ کرنا وغیرہ تعریف مجھ سے سنکر اس سے چھپاؤ، (اس کے سامنے بیان نہ کرو) کیونکہ وہ بہادر ہے، اور بہادروں کے سامنے جب جنگوں کا ذکر ہوتا ہے تو لڑائی کے مشتاق بن جاتے ہیں، اور یہ اشعار عرب والوں کی عادت کے مطابق ہیں، اس لئے کہ شاعر یہ تصور وتخیل کر لیتا ہے کہ اس کے دو ساتھی ہیں جو اس کے ساتھ رہتے ہیں اور اس کے اشعار غور سے سنتے ہیں ، تو وہ ان سے ایسے خطاب کرتا ہے جیسے