الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
القواعد (قاعدے) (۱۴) استعارہ اصلیہ اس وقت ہوگا جب کہ جس لفظ میں استعارہ جاری ہوا ہے وہ اسم جامد ہو۔ (۱۵) استعارہ تبعیہ اس وقت ہوگا جب کہ جس لفظ میں استعارہ جاری ہوا ہے وہ اسم مشتق ہو یا فعل ہو۔ (۱۶) ہر استعارہ تبعیہ کا قرینہ استعارہ مکنیہ ہوتا ہے مگر جب استعارہ تبعیہ اور مکنیہ میں سے کسی ایک میں استعارہ جاری کردیا جائے تو دوسرے میں اس کا جاری کرنا جائز نہیں ہوگا۔النموذج (نمونے کی مثالیں) (۱)عَضَّنَا الدَّهھْرُ بِنَابِہه لَیْتَ مَا حَلَّ بِنَابِہٖه ترجمہ:- زمانے نے ہمیں اپنے دانت سے کاٹ کھایا، کاش جو مصیبت ہم پر اتری ، زمانہ پر اترتی۔ (۲) متنبی نے کہا ہے ؎ حَمَلْتُ إِلَیْہِه مِنْ لِسَانِيْ حَدِیْقَةً سَقَاهَا الْحِجٰی سَقْیَ الرِّیَاضِ السَّحَائِبِ ترجمہ:- میں ممدوح کے پاس اپنی زبان کا باغ اٹھاکر لایا، جس کو عقل نے سیراب کیا بادلوں کے باغ کو سیراب کرنے کی طرح ۔ (۳) اور کسی دوسرے شاعر نے پرندہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ؎ أَنْتَ فِیْ خَضْرَاءَ ضَاحِکَةۃٍ مِنْ بُکَاءِ الْعَارِضِ الْهِتَنِ ترجمہ:- تو ایک ایسے ہرے بھرے باغ میں ہے جو بہت برسنے والے بادل کے رونے پر ہنس رہا ہے۔الاجابۃ (نمونے کا حل) (۱) پہلی مثال میں دہر کو پھاڑکھانے والے درندے سے وجہ جامع ایذاء کے ساتھ تشبیہ دی ہے، پھر مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کے ایک لازم ’’عضنا‘‘سے اشارہ کیا گیا ہے، پس یہ استعارہ مکنیہ اصلیہ ہے کیونکہ ’’الدهھر‘‘ اسم جامد ہے۔ (۲) دوسری مثال میں شعر کو باغ سے دونوں میں وجہ جامع جمال کے سبب سے تشبیہ دی گئی ہے پھر مشبہ بہ پر دلالت کرنے والے لفظ کو مشبہ کے لئے مستعار لیا گیا پس یہ استعارہ تصریحیہ ہے اور الحجی بمعنی عقل کو