الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۵) میں سورج کی رسیوں (شعاعوں) کو شکاری کا جال سمجھتا ہوں، جو شمال وجنوب سے ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ ہم اس جال کو اٹھائے چلتے ہیں جب کہ موت بھوکی پیاسی آنے جانے میں ہمیں دیکھ رہی ہے۔ (۶) متنبی شاعر کہتا ہے ؎ زمانے کے بیٹے زمانے کے پاس اس کی جوانی میں آئے تھے تو زمانے نے ان کو خوش کردیا، اور ہم زمانے کے پاس اس کے بڑھاپے میں آئے۔ (۷) ابو تمام شاعر کہتا ہے ؎ میرے غم مجھ سے سوگئے (ختم ہوگئے) جب میں نے ان سے کہا کہ یہ ابودُلف هے جو مجھ کو کافی اور وافی ہے۔ (۸) تم اپنی جوانی کے وقت کو قتل (ضائع) کرنے سے بچو، اس لئے کہ ہر قتل کا قصاص ہوتا ہے۔ (۹) کسی نے کتابوں کی تعریف میں کہا ہے ؎ ہمارے کچھ ہمنشین ہیں جن کی باتوں سے ہم اکتاتے نہیں ہیں، بہت عقلمند اور امن والے ہیں غائب اور حاضر ہونے کے وقت۔ (۱۰) ابو تمام شاعر کہتا ہے ؎ جب میں نے تجھے حوادث پر پیش کردیا تو میں کفایت کیا گیا حوادث سے، (یعنی حوادث سے مجھے امن رہا) اور تلوار اس وقت تک تیری کفایت نہیں کرتی جب تک میان سے باہر نہ نکلے۔ (۱۱) فلاں شخص ایسےعار میں لت پت ہوگیا ہے جو اس سے کبھی نہیں دھل سکتا ہے۔حل تمرین - ۱ (۱) ’’ربیع ‘‘میں استعارہ مکنیہ ہے، ربیع کو انسان سے تشبیہ دی گئی، پھر مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کی طرف اس کے ایک لازم’’ایدی‘‘ سے اشارہ کیا گیا، اور ہاتھوں کو ربیع کے لئے ثابت کرنا ہی قرینہ ہے، اور’’کتبت اور صحائف‘‘، اور سطور میں ترشیح ہے۔ (۲)’’دهھر‘‘میں استعارہ مکنیہ ہے، دھر کو جمل کے ساتھ تشبیہ دی گئی پھر مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کی طرف