الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
ترجمہ:- اور دلکش بالی والی وہاں تیز کاٹنے والی تلوار والے سے زیادہ جزع فزع کرنے والی نہیں تھی۔ فَلَوْکَانَ مَابِی مِنْ حَبِیْبٍ مُقَنَّعِ عَذَرْتُ وَلٰکِنْ مِنْ حَبِیْبٍ مُعَمَّمِ ترجمہ:- اگر مجھے پیش آنے والی بات نقاب پوش محبوب کی طرف سے ہوتی تو میں اس کو معذور قرار دیتا لیکن یہاں عمامہ باندھنے والے محبوب کی طرف سے پیش آیا ہے، (تو میں کیا تاویل کروں)۔ رَمَی وَاتَّقٰی رَمْیِيْ وَمِنْ دُوْنِ مَااتَّقٰی هَویً کَاسِرٌ کَفِّی وَقَوْسِی وَأَسْھهُمِی ترجمہ:- اس نے تیراندازی کی، اور میری تیر اندازی سے بچا، اور جس کی آڑ میں وہ بچا اس کے پیچھے ایسی محبت ہے جس نے میرے ہاتھ، اور میرے تیر وکمان توڑ دئے۔ إِذَا سَاءَ فِعْلُ الْمَرْءِ سَاءَتْ ظُنُوْنُہهُ وَصَدَقَ مَایَعْتَادُهُ مِنْ تَوَهُّمِ ترجمہ:- جب انسان کا عمل برا ہوجاتا ہے تو اس کے خیالات برے ہوجاتے ہیں، اور اس وھم وگمان کو بھی سچ سمجھنے لگتا ہے جس کا وہ عادی ہوتا ہے۔ اس لئے کہ شاعر نے سب سے پہلے سیف الدولہ کو عمامہ والے محبوب سے کنایہ کیا، پھر اس نے اس کو اس صفت بے وفائی سے متصف کیا جس میں اس کا دعوی ہے کہ یہ عورتوں کی خصلت ہے، پھر اس کی اچانک سرکشی پر اس کو ملامت کرتے ہو ئے اس پر بزدلی کا الزام لگایا، اس لئے کہ وہ تیر پھینکتا ہے اور دوسرے کے پیچھے چھپ کر اپنے کو تیراندازی سے بچاتا ہے، اس کے باوجود متنبی اس کو اس کے شر کا بدلہ شر سے نہیں دیتا ہے، اس لئے کہ وہ برابر سیف الدولہ کے لئے اپنے پہلو میں اس کی پرانی محبت اٹھائے ہوئے ہے، کہ جب بھی وہ تیر پھینکنے کا ارادہ کرتا ہے تو یہ اس کے ہاتھ اور اس کے تیر وکمان کو توڑدیتی ہے، ــــــــــــــ پھر اس نے سیف الدولہ کو اپنے دوستوں سے بدظن ہونے سے متصف کیا، اس لئے کہ وہ بدکردار اور بہت زیادہ اوھام وگمان والا ہے، یہاں تک کہ وہ تمام لوگوں کو بدکرداری اور بے وفائی میں اپنے جیسا ہی سمجھتا ہے، ــــــــــــــ غور کریں متنبی نے سیف الدولہ کی عزت وآبرو پر کیسا حملہ کردیا، اس کے نام کا ایک حرف بھی ذکر نہیں کیا، (تعریض کی) ــــــــــــــ اور کنایہ کی نمایاں خصوصیت کسی ناپسندیدہ چیز کو اس انداز سے بیان کرنا کہ کان اس کے سننے کو گوارہ کرلیں، قران کریم اور کلاب عرب میں اس کی بے شمارمثالیں ہیں، چنانچہ اہل عرب جس کو ذکر کرنا اچھا نہیں ہوتا تھا اس کو کنایہ سے ہی بیان کرتے تھے، اور اپنی