الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۱) ابوتمام، خلیفہ کی اسکے بیٹے کے بارے میں تعزیت کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ اے امیر المومنین صبر سے کام لیں، اسلئے کہ یه اسکی وجہ سےهے جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ بچے کو غذا بھی دی جاری ہے اور بچے پیدا بھی ہورہے ہیں، (یعنی غذا اور پیدائش موت ہی کے لئے ہے)۔ اور آپ کا بیٹا بھی آدمؑ کی نسل ہی سے ہے، موت کے حوض پر ہر ایک کو پانی پینے کے لئے اترنا ہے۔ (۲) ابراہیم بن مہدی نے اپنے بیٹے کے مرثیے میں کہا ہے ؎ اس نے میرے گھر کے علاوہ گھر اور میرے علاوہ پڑوس تبدیل کردیا، اور زمانے کے حوادث تو باری باری سب پر آتے ہیں۔ (۳) ایک شاعر کا شعر ہے ؎ پس اگر مجھے مقتول ہونا ہے تو آپ ہی میرے قاتل بن جائیں، کیونکہ قوم کی بعض موتیں بعض سے زیادہ باعزت ہوتی ہیں۔ (۴) اللہ تعالی کا ارشاد ہے، یہ ہم نے ان کو بدلہ دیا ان کے کفر کی وجہ سے، اور ہم کافروں کو ہی سزا دیتے ہیں۔حل تمرین - ۳ (۱) دوسرے شعر میں دو جگہ تذییل کے ذریعہ اطناب ہے، پہلی جگہ ’’هَھلِ ابْنُكَ إِلَّامِنْ سَلَالَةِۃ آٓدَمَ‘‘ اور یہ تذییل ضرب المثل کے قائم مقام نہیں ہے، اور دوسری جگہ ’’لِکُلٍّ عَلٰی حَوْضِ الْمَنِیَّةِ مَوْرِدُ‘‘ اور یہ تذییل ضرب المثل کے قائم مقام ہے، اسلئے کہ دونوں مصرعے پہلے شعر ’’إِنَّہهُ لِمَا قَدْ تَرٰی یُغْذَی الصَّبِیُّ وَیُوْلَدُ‘‘سے مفہوم ہونے والے معنی کی تاکید کرتے ہیں، اسلئے کہ یہ اسکا فائدہ دے رہا ہے کہ بچہ مرنے کے لئے ہی پیدا ہوتاہے۔ (۲) ’’وَأَحْدَاثُ الزَّمَانِ تَنُوْبُ‘‘ میں تذییل ہے جو ضرب المثل کے قائم مقام ہے، اسلئے کہ یہ مستقل بالمعنی کلام ہے اور ماقبل سے مستغنی ہے۔ (۳) شعر کا دوسرا مصرعہ پہلے کے لئے تذییل ہے، اور یہ ضرب المثل کے قائم مقام ہے۔ (۴) ’’وَهَلْ نُجَازِی إِلَّا الْکَفُوْرَ‘‘ اللہ تعالی کے ارشاد ’’ذَلِكَ جَزَيْنَاهُم بِمَا كَفَرُوا ‘‘ کے لئے تذییل ہے، اور یہ ضرب المثل کے قائم مقام نہیں ہے، اسلئے کہ اسکا معنی اپنے ماقبل سے مستغنی نہیں ہے، اسلئے کہ معنی هیں ’’ہم نہیں بدلہ دیتے ہیں وہ بدلہ جو ہم نے ماقبل میںذکر کیا مگر کافروں کو‘‘۔