الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
جزیرے پر قحط آگیا تو میں نے جزیرہ والوں سے کہا، تم اس کی سخاوت کا انتظار کرو اگر بجلی نہ چمکے۔ (۴) بدر الدین یاسف ذھبی نے کہا ہے ؎ اے دوست ایسے باغ کی طرف آ جس میں مشقت زدہ شخص اپنے غم کے زنگ کو جلا بخشے باد نسیم اپنے دامن میں گھسٹ کر چلتی ہے، اور اس کے پھول اپنی آستین میں مسکراتے ہیں۔ (۵) ابن المعتز نے کہا ہے ؎ کیا تم زمین پر آسمان کے احسان کو نہیں دیکھتے؟ اور کیا باغوں کے بارش کا شکریہ ادا کرنے کو نہیں دیکھتے؟ (۶) سعید بن حمید شاعر کہتا ہے چودھویں کے چاند نے رات ملاقات کا وعدہ کیا، پس جب اس نے وعدہ پورا نہیں کیا تو میں نے اپنی نذریں پوری کرلیں۔ (۷) مجھ سے ایک پہاڑ نے ملاقات کی، تو میں اس کے کلام سے تنگ دل ہوگیا۔ (۸) ایک دیہاتی نے کہا: رائے کی جو لانی کتنی سخت ہوتی ہے خواہش کے وقت، اور نفس کو دودھ چھڑانا کتنا مشکل ہے جہالت کی طرف میلان کے وقت۔ (۹) ایک دیہاتی نے بنی برمک قبیلہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: میں نے ان کو دیکھا درانحالیکہ انہوں نے احسان کا لباس پہن رکھا تھا، گویا وہ ان کے کپڑے ہیں۔حل تمرین - ۴ (۱) ’’مطر‘‘ میں استعارہ تصریحیہ اصلیہ ہے، جس میں آنسو کو بارش سے تشبیہ دی ہے، جامع پانی کا نزول ہے، اور قرینہ ’’خد‘‘ ہے، اور خدود کے ذکر میں تجرید ہے، اور ’’محول‘‘ کے ذکر میں ترشیح ہے، اس لئے كه محل (قحط) حاصل ہوتا ہے بارش رکنے سے، پس استعارہ مطلقہ ہے۔ (۲) ’’نهھار‘‘ میں استعارہ مکنیہ ہے، جس میں نہار کو عورت سے تشبیہ دی ہے، اور مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کی طرف اس کے لازم ’’وجہه‘‘ سے اشارہ کیا گیا ہے، یہی قرینہ ہے، اور ’’برقعت‘‘ کے ذکر میں ترشیح ہے اس لئے کہ یہ مشبہ بہ کے مناسب ہے، تو استعارہ مرشحہ ہے۔ (۳) ’’شیموا‘‘ میں استعارہ تصریحیہ تبعیہ ہے، اس میں ممدوح سے عطا طلب کرنے کو بجلی چمکنے یعنی