الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
آچکا ہے، اور میں ہی ان کو توڑنے والا ہوں۔ (۲) اور متنبی نے کہا ہے؎ وَلَمَّا قَلَّتِ الْإِبْلُ امْتَطَیْنَا إِلٰی ابْنِ أَبِیْ سُلَیْمَانَ الْخُطُوْبَا ترجمہ:- جب اونٹ کم ہوگئے تو ہم ممدوح ابن ابی سلیمان کے پاس حوادث پر سوار ہوکر گئے۔ (۳) اور اسی شاعر نے کہا ہے اَلْمَجْدُ عُوْفِیَ اِذْ عُوْفِیْتَ وَالْکَرَمُ وَزَالَ عَنْكَ إِلٰی أَعْدَائِكَ الْأَلَمُ ترجمہ:- شرافت اور سخاوت کو عافیت مل گئی ، جب آپ کو عافیت مل گئی، اور تکلیف آپ سے ہٹ کر آپ کے دشمنوں کے پاس چلی گئی۔البحث (مثالوں کی وضاحت) گذشتہ تمام مثالوں میں مجاز لغوی ہے، یعنی ہر کلمہ اپنے غیر حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے، چنانچہ پہلی تین مثالوں میں سے پہلی مثال مشتمل ہے دو لفظوں پر یعنی ’’ الظُّلُمَاتُ ‘‘ اور ’’اَلنُّوْرُ‘‘، پہلے لفظ سے مراد ضلالت و گمراہی ہے اور دوسرے لفظ سے مراد ہدایت اور ایمان ہے، اور علاقہ مشابہت ہے اور قرینہ حالیہ ہے۔ اور متنبی کا شعر دو مجازوں پر مشتمل ہے، ان دو میں ایک لفظ’’بَحْر‘‘ہے جس سے مراد سخی آدمی ہے مشابہت کے علاقہ کی وجہ سے ، اور قرینہ’’مشی‘‘ہے، اور دوسرا لفظ’’اسد‘‘ہے، جس سے مراد بہادر آدمی ہے، مشابہت کے علاقہ کی وجہ سے، اور قرینہ ’’تُعَانِقُہهُ‘‘ ہے، اور تیسرا شعر ایک مجاز پر مشتمل ہے اور ’’تَصَافَحَتْ‘‘ ہے ، جس سے مرادُ تلاقتْ (ملنا) ہے، مشابہت کے علاقہ کی وجہ سے، اور قرینہ ’’بِیْضُ الْھهِنْدِ وَاللَّمَمِ‘‘ ہے۔ اور اگر آپ گذشتہ ہر مثال میں غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ وہ ایک ایسی تشبیہ کو متضمن ہے، جس سے لفظ مشبہ کو حذف کردیا گیا ہے، اور اس کی جگہ لفظ مشبہ بہ کا استعارہ کیا گیا ہے تاکہ وہ مشبہ کے قائم مقام ہوجائے، اس دعوی کے ساتھ کہ مشبہ بہ بعینہ مشبہ ہے، اور یہ فن بلاغت میں بہت زیادہ دور رس اور بلاغت میں بہت زیادہ مؤثر ہے، اور اس مجاز کا نام استعارہ ہے، اور اس مجاز میں جب مشبہ بہ کی صراحت کردی گئی ہوتو اس کا نام استعارہ تصریحیہ ہے۔