الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
حل تمرین - ۱ (۱) کاتب نے اقتباس کی تمہید کو اور اسکے ماقبل والے کلام سے حسن اتصال کو عمدہ بیان کیا، اسلئے کہ اس نے اقتباس کو سبب بنایا اس چیز کا جسکو وہ پہلے اپنے کلام میں لایا یعنی جوانی کے زمانے میں خیر کے کاموں میں سبقت کرنے پر ابھارنا، پھر سجع کو انوکھے انداز میں لایا، اور کلام میں دو ضدیں جمع کردی، ’’فاحم اور یبیض‘‘ اور یہ حسن کلام کی انواع میں سے ہے۔ (۲) اس مثال میں بلیغ کا حسن کردار یہ ہے کہ اس نے آیات کو اس موضوع سے پلٹ دیا جس میں وہ کہی گئی ہیں، اور وہ ایک نبی علیه السلام کا وصف بیان ہوا ہے، ــــــــــــ ایک نئے موضوع کی طرف، اور وہ خط کے بارے میں گفتگو کرنا ہے جو اسکو کسی امیر کی طرف سے پہنچا ہے، اور اس انتقال میں اس نے انوکھی سلاست کا مظاہرہ کیا ہے، پھر نرم اور سہل سجع سے اسکو مزین کیا ہے جس میں تکلف کا کوئی اثر نہیں ہے۔ (۳) اصل آیت جسکا کاتب نے اقتباس کیا ہے وہ فرشتوں کی حالت کے بیان میں ہے، اور شاعر نے نامہ بر کبوتری کو فرشتہ کے ساتھ تشبیہ دینا چاہا ہے دونوں میں مشابہت کی وجہ سے، پس دونوں فریق کے لئے پَر ہیں، اور دونوں فریق پیغام کو کسی زمین تک لے جاتے ہیں، اور دونوں اپنے ذمہ اٹھائی ہوئی چیز میں امانتدار ہیں، اس اقتباس میں حسن وجمال کی وجہ یہ ہے کہ کاتب نے اس میں ایک عجیب وغریب تشبیہ باندھی ہے، جو دلوں پر خیال گذرنے سے دور ہے۔ (۴) یہاں اقتباس میں حسن وجمال کی وجہ یہ ہے کہ کاتب نے دو ضدوں کو جمع کیا ہے، وہ تلواروں کا چمکدار ہونا، اور اسکے دشمنوں کے چہروں کا سیاہ ہونا ہے، پھر آیت کریمہ کو پلٹ دیا قیامت کے دن بے ایمانوں کی حالت کو بیان کرنے سے ممدوح کے دشمنوں کی حالت بیان کرنے کی طرف، اگرچہ دونوں جگہ سیاہ ہونے کا سبب الگ الگ ہے، پس بے ایمانوں کے چہرے کا سیاہ ہونا یہ حسرت وافسوس سے کنایہ ہے اور دشمنوں کے چہروں کا سیاہ ہونا یہ ناکامی اور رسوائی سے کنایہ ہے۔ (۵) اصل حدیث شریف حضورؐ کی دعا ہے کہ بارش قوم کے اطراف میں گرے، اور ان کے اوپر نہ گرے، اور شاعر نے اسکا اقتباس کیا اور اسکو پلٹ دیا فراق وجدائی کی بارش کی طرف، اور اسکے لئے ایک خوبصورت تمہید لایا پس وہ کہتا ہے کہ اس نے ہجر و فراق کے بادل دیکھے جو جمع ہورہے ہیں اور گھنے ہورہے ہیں، اور وہ فراق کا پانی