الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
پس جب اس کے لئے یہ ساری چیزیں مکمل ہوجائیں تو وہ ایسے الفاظ کا قصد کرے جو واضح، پُر اثر اور مقام کے مناسب ہوں، پھر ان کو اس طرح ترتیب دے کہ جس سے ان میں قوت اور خوبصورتی پیدا ہوجائے، پس خلاصہ یہ کہ بلاغت صرف لفظ میں نہیں ہوتی اور نہ صرف معنی میں ہوتی ہے بلکہ یہ لفظ ومعنی کو صحیح طریقہ پر ترتیب دینے اور حسن تنظیم کا ایک لازمی اثر ہے۔ فائدہ:- فصاحت وبلاغت کی تعریف سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر بلیغ چاہے وہ متکلم ہو یا کلام -- فصیح ہے لیکن اس کے برعکس ہر فصیح بلیغ نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ فصاحت اعم ہے کہ اس کی تعریف میں بلاغت ماخوذ نہیں ہے، اور بلاغت اخص ہے کہ اس کی تعریف میں فصاحت ماخوذ ہے، پس ہوسکتا ہے کہ ایک کلام فصیح ہو مگر مقتضائے حال کے مطابق نہ ہو، مگر یہ ممکن نہیں کہ کوئی کلام بلیغ ہو اور اس میں فصاحت کا لحاظ نہ کیا گیا ہو، گویا کہ فصاحت وبلاغت کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ الفاظ کا فصیح وبلیغ ہونا فصاحت وبلاغت کا ادنی درجہ ہے، فصاحت کا اعلی درجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق جملے سے ہو اور بلاغت کا اعلی درجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق اسلوب بیان ، معانی، اور مضمون سے ہو۔ (حاشیہ الشموس البازعۃ) وبعد ھذا یحسن بک:-مصنفؒ کہتے ہیں کہ فصاحت وبلاغت کے مختصر بیان کے بعد آپ کے لئے بہتر ہے کہ تھوڑی بہت اسلوب کی معرفت ہوجائے۔اسلوب کی تعریف اور اس کی اقسام اسلوب وہ ایسے الفاظ میں ڈھالے گئے مفہوم کو کہتے ہیں کہ وہ الفاظ ایسی صورت پر ترتیب دئے گئے ہوں جو کلام سے معنیٴ مقصود کے حصول کے زیادہ قریب ہوں، اور سننے والوں کے دلوں پر زیادہ اثر انداز ہوں۔ اسلوب کی تین قسمیں ہیں (۱)اسلوب علمی (۲)اسلوب ادبی (۳)اسلوب خطابی ، اسلوب علمی، یہ اسلوب تمام اسالیب میں سب سے زیادہ پر سکون ہوتا ہے، اور اس اسلوب میں صحیح گفتگو اور درست فکر وسوچ کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے، نیز یہ اسلوب شعری تخیل سے بھی بعید ہوتا ہے، اس لئے کہ اس میں مخاطب عقل ہوتی ہے اور افکار سے گفتگو کی جاتی ہے، اور اس کے ذریعہ ایسے علمی حقائق کی تشریح کی جاتی ہے جو ابہام اور خفا سے خالی نہیں ہوتے۔