الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
چنانچہ پہلی مثال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں انصار کی دو صفتیں یعنی ’’کثرة وفزع‘‘ کو بیان کیا ، پھر کلام کے آخر میں ان کے مقابل دو صفتیں یعنی ’’قلة وطمع‘‘ کو ترتیب وار بیان کیا، ــــــــــــــــ اور دوسری مثال میں خالد بن صفوان نے ’’صدیق اور سر‘‘ کے مقابلہ میں ’’عدو اور علانیةہ‘‘ کو ذکر کیا۔ پھر دوسرے حصہ کی دو مثالیں دیکھیں تو ان میں سے ہر ایک اپنے شروع میں ایک سے زیادہ معنوں پر مشتمل ہے، پھر آخر میں ان کے مقابل معنوں پر مشتمل ہے ترتیب وار، اور کلام کو اس طریقہ پر ادا کرنے کا نام ’’مقابلہ‘‘ ہے ــــــــــــــــ اور مقابلہ کلام میں اسکے معانی میں حسن وجمال اور وضاحت پیدا کرنے کے اسباب میں سے ہے، بشرطیکہ متکلم کو یہ بغیر تکلف کے حاصل ہوجائے، لیکن اگر متکلم تکلف وتصنع کے پیچھے پڑجائے، تو اس سے کلام میں تعقید پیدا ہوجاتی ہے، اور یہ معنی کی وضاحت کو بھی روک دیتا ہے، اور کلام سلاست وسہولت کی رونق سے محروم ہوجاتا ہے۔القاعدہ (قاعدہ) (۷۳) مقابلہ اسکو کہتے ہیں کہ دو یا زیادہ معانی کو لایا جائے پھر ان کے مقابل معانی ترتیب وار لائے جائیں۔التمرین - ۱ آنے والی مثالوں میں مقابلہ کے مواقع بیان کریں۔ (۱) حضرت عائشہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا عائشہ! اپنے اوپر نرمی کو لازم کرلو، اسلئے کہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے وہ اسکو مزین کردیتی ہے، اور جس چیز سے بھی نرمی کو نکال دیا جاتا ہے وہ اس کو عیب دار کردیتا ہے۔ (۲) کسی ادیب وبلیغ کا قول ہے ــــــــــــ جماعت کا گدلا پن جدائی کی صفائی سے اچھا ہے۔ (۳) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــــــ وہ ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں، اور گندی چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ (۴) اور جریر کا شعر ہے ؎ وہ اپنے دائیں ہاتھ سے تمہارے میں خیر کو پھیلاتا ہے، اور اپنے بائیں ہاتھ سے تمہارے سے شر کو روکتا ہے۔ (۵) بحتری کا شعر ہے ؎