الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
دوسرا مصرعہ تاکید کے لئے لایا گیا، ــــــــــــ اگر آپ دونوں مثالوں میں تذییل پر غور کریں گے تو دونوں میں کچھ اختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ پہلی مثال میں تذییل مستقل بالمعنی ہے، اسکا سمجھنا ماقبل کے سمجھنے پر موقوف نہیں ہے، اسکو کہا جاتا ہے کہ یہ ضرب المثل کے قائم مقام ہے، ــــــــــــ اور دوسری مثال میں تذییل مستقل بالمعنی نہیں ہے، اسلئے کہ اسکا مقصد ماقبل کی مدد کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا ہے، اس قسم کو کہا جاتا ہے کہ یہ ضرب المثل کے قائم مقام نہیں ہے۔ اب آپ آخری مثال میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اگر ہم اس سے ’’ظالمین‘‘ کا لفظ گرادیں تو سامع کو یہ غلط فہمی ہوگی کہ ابن المعتز کا گھوڑا سست رفتار ہے وہ کوڑا مارنے کا مستحق ہے، اور یہ معنئ مقصود کے خلاف ہے، اور کلام میں اسطرح کی زیادتی کو ’’احتراس‘‘ کہا جاتا ہے، ــــــــــــ اور اسی طرح ہر وہ زیادتی جو کلام میں خلافِ مقصود کے وہم کو دفع کرے (اسکا نام احتراس ہے)۔القاعدہ (قاعدہ) (۶۷) اطناب: کسی فائدہ کے لئے معنی پر لفظ کی زیادتی کو کہتے ہیں، اور یہ چند امور سے ہوتا ہے، جن میں سے یہ ہیں۔ (الف) خاص کو ذکر کرنا عام کے بعد خاص کی فضیلت پر متنبہ کرنے کے لئے۔ (ب) عام کو ذکر کرنا خاص کے بعد خاص کے معاملے میں خاص توجہ دینے کے ساتھ عموم کا فائدہ دینے کے لئے۔ (ج) ابہام کے بعد وضاحت کرنا سامع کے ذھن میں معنی کو بٹھانے کے لئے۔ (د) کسی داعی وسبب کی وجہ سے تکرار جیسے سامع کے دل میں معنی راسخ کرنا ، حسرت ظاہر کرنا، اور طولِ فصل وغیرہ ۔ (ہ) اعتراض، وہ یہ ہے کہ کلام کے درمیان یا معنی میں متصل دو کلاموں کے درمیان ایک جملہ یا زیادہ جملے لانا جسکا محلِ اعراب کوئی نہ ہو۔ (و) تذییل: وہ ایک جملے کے بعد لانا ہے دوسرا جملہ جو پہلے جملے کے معنی پر مشتمل ہو، اسکی تاکید کررہا ہو، اور یہ دو قسم پر ہے۔ (۱) ضرب المثل کے قائم مقام ہو ــــــــــــ اگر اسکا معنی مستقل ہو اور ماقبل سے مستغنی ہو۔ (۲) ضرب المثل کے قائم مقام نہ ہو ــــــــــــ اگر وہ ماقبل سے مستغنی نہ ہو۔