الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
البحث (مثالوں کی وضاحت) پہلے شعر میں شاعر اپنے آپ کو رضامندی کی حالت میں پرسکون صاف شفاف پانی سے تشبیہ دے رہا ہے، اور غصہ کی حالت میں شعلہ مارنے والی آگ سے تشبیہ دے رہا ہے، پس وہ محبوب بھی ہے اور خوفناک بھی ہے -- اور دوسری مثال میں رات کو تاریکی اور خوفناکی میں سمندر سے تشبیہ دے رہا ہے -- اگر آپ پہلے شعر اور دوسری مثال میں غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ ادات تشبیہ دونوں میں سے ہر ایک میں موجود ہے اور ہر وہ تشبیہ جس میں ادات تشبیہ مذکور ہو، اس کا نام’’ تشبیہ مرسل‘‘ ہے، اور اگر دوبارہ دونوں تشبیہوں کو دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ دونوں میں وجہ شبہ بیان کردیا گیا ہے، اور ہر وہ تشبیہ جس میں وجہ شبه مذکور ہو اس کا نام ’’تشبیہ مفصل‘‘ ہے، ــــــــــــ تیسری مثال میں ابن الرومی گانے والے کی حسین آواز اور اس کو اچھی طرح پیش کرنے کا حال بیان کررہا ہے کہ ’’گویا اس کی آواز کی لذت جسم میں اس طرح سرایت کرتی ہے جیسے ہلکی نیند کا ابتدائی مرحلہ جسم میں سرایت کرتا ہے، لیکن شاعر نے اس اعتماد پر وجہ شبہ ذکر نہیں کیا کہ آپ خود اس کا ادراک کرسکتے ہیں، اور وہ (وجہ شبہ) دونوں حالتوں میں راحت حاصل ہونا اور لذت حاصل ہونا ہے، ــــــــــــ اور چوتھی مثال میں ابن المعتز طلوع ہونے کے وقت سورج کو ایسے صاف شفاف دینار سے تشبیہ دے رہا ہے جس کے ڈھالے جانے کا زمانہ قریب ہو (یعنی ابھی ابھی ڈھالا گیا ہو) لیکن اس نے بھی وجہ شبہ کو ذکر نہیں کیا ہے، اور وہ (وجہ شبہ ) زرد ہونا اور چمکدار ہونا ہے اور اس قسم کی تشبیہ جس میں وجہ شبہ مذکور نہ ہو، اس کو ’’ تشبیہ مجمل‘‘ کہتے ہیں۔ اور پانچویں اور چھٹی مثال میں عمدہ گھوڑے کو تیز رفتاری میں بجلی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، اور ممدوح کو بلندی اور روشنی میں ستارے سے تشبیہ دی گئی ہے، مگر دونوں تشبیہوں میں ادات تشبیہ مذکور نہیں ہے، اور ادات تشبیہ کا ذکر نہ کرنا یہ اس دعوی کو مؤکد کرنے کے لئے ہے کہ مشبہ عینِ مشبہ بہ ہے، اور اس قسم کا نام ’’تشبیہ مؤکد‘‘ ہے۔ اور ساتویں مثال میں متنبی خوف وہراس کو ظاہر کرکے اپنے ممدوح سے سوال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ کہاں کا ارادہ کرتے ہیں، اور ہمیں چھوڑ کر کیسے سفر کررہے ہیں، ہم تو آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ، اس لئے کہ آپ تو بادل کی طرح ہیں جو بنجر زمین كو سر سبز کرتا ہے، اور ہم اس گھاس کی طرح ہیں جو بغیر بادل یعنی بارش کے