الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اور دوسری مثال میں استعارہ کا اجرا اس طرح ہے کہ اس محنتی آدمی کی حالت کو جو فراحی کے سال میں تھوڑا مال ذخیرہ کرلے محتاط اور چوکنا ہوکر اس بات سے کہ ہوسکتا ہے کہ اگلا سال قحط والا ہو ــــــــــــــ ، اس حالت کو تشبیہ دی ہے اس مسافر سوار کی حالت سے جو پانی ساتھ لیکر چلتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ راستہ میں پانی ملے گا، جامع احتیاط اور چوکنا ہونا اور کسی چیز پر اعتماد نہ کرنا ، ممکن ہے نہ ملے۔التمرین - ۷ متنبی شاعر کے قول کی مختصر شرح کریں ، اور اس حسن بیان کی منظر کشی ذکر کریں جو آپ کو اس میں پسند آئی ہو۔ (۱) زمانے نے مجھ پر مصیبتوں کے تیر پھینکے یہاں تک کہ میرا دل تیروں کے غلاف میں چلا گیا (کہ اب دل نظر ہی نہیں آرہا ہے)۔ (۲) پس میری حالت ایسی ہوگئی کہ جب تیر میرے اوپر گرتے ہیں تو تیر کی دھار (دوسرے پہلے والے) تیر کی دھار سے ٹکراکر ٹوٹ جاتی ہے۔حل تمرین - ۷ شعر کی تشریح:- بیشک زمانے نے اپنے مصائب وحوادث میرے اوپر ڈالدئے، اور میرے دل کو غمگین کردیا ان لوگوں سے جن سے میں محبت کرتا تھا، اور دل کو ڈھانپ دیا مصیبتوں کے تیروں سے، یہاں تک کہ اگر کوئی اب میرے اوپر نیا تیر پھینکنے کا ارادہ کرے تو دل پر تیر گرنے کی جگہ ہی نہیں پائے گا۔ شعر کی منظر کشی کا ذکر:- ابوطیب متنبی نے انوکھی منظر کشی کی ہے، اس نے مصائب کو تیروں کی شکل میں مصور کیا ہے، اس لئے کہ تیر تیزی سے گرتے ہیں اور کثرت سے پے درپے گرتے ہیں، اور اس لئے کہ تیروں کی تاثیر قوی ہے اور تکلیف سخت ہے، اور تیروں کی کثرت کی اس نے عجیب منظر کشی کی ہے، اس کا دعوی ہے کہ تیروں کی کثرت کی وجہ سے اس کے دل میں اب نئے تیر کی جگہ ہی نہیں رہی ، اور وہ تیر جو لگے ہیں وہ اکتفاہی نہیں کرتے بلکہ دل پر اور مسلسل تیر گررہے ہیں، تو جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اب نئے تیروں کی دھار پہلے والے تیروں کی دھار سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتی ہے، یعنی اب گویا تیر تیروں پر ہی پڑ رہے ہیں۔ اور دوسرے شعر میں استعارہ تمثیلیہ ہے، اس میں مصائب کے ازدحام اور ڈھیر لگنے کی حالت کو تیروں کی کثرت کی حالت سے تشبیہ دی جو بعض بعض پر گررہے ہوں۔