الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۹) اس میں مخاطب کو دینار مانگنے سے باریک طریقہ پر پھیر دینا ہے، اسلئے کہ شاعر نے سائل کو اسکے سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ وہ اس سے یہ باتیں کرنے لگا کہ دینار کس سے بنتا ہے، اوریه كه درھم چاندی سے بنتا ہے نہ کہ سونے سے، یہ بتلانے کے لئےكه اسکا درھم کو مانگنا مناسب نہیں ہے۔ (۱۰) مسلمانوں نے حضورؐ سے پوچھا ہم اپنے کیا مال خرچ کریں؟ تو ان کو اس سے پھیردیا مصرف بیان کرکے اسلئے کہ خرچ کا کوئی اعتبار نہیں ہے اگر یہ اصل جگہ میں واقع نہ ہو۔ (۱۱) حضرت خالد کا مقصد تھا ’’فیم انت‘‘ سے تیری حاجت کیا ہے؟ لیکن اس آدمی نے اسکو ظرفیت کے معنی پر محمول کردیا، اسی لئے ’’فی ثیابی‘‘سے جواب دیا، اور حضرت خالدؓ کا مقصد تھا ’’علام انت‘‘ سے تمہارا مرتبہ کیا ہے؟ لیکن اس آدمی نے اسکو استعلاء پر محمول کردیا، اسی لئے اس نے ’’علی الارض‘‘ سے جواب دیا، اور حضرت خالد کی مراد ’’سن‘‘ سے وہ سال ہیں جو آدمی جیتا ہے، لیکن اس آدمی نے اسکو منہ کے دانتوں پر محمول کردیا، اسی لئے ’’اثنتان وثلثون‘‘ بتیس سے جواب دیا، جو آدمی کے دانتوں کی تعداد ہے جب وہ مکمل ہوجاتے ہیں۔ (۱۲) دوسرے شعر میں ’’قضی‘‘ میں اسلوب حکیم ہے، جس سے مراد ’’مات‘‘ہے لیکن لوگوں نے اسکو حاجتیں پورا کرنے پر محمول کردیا، اور یہ شاعر کا مقصد نہیں ہے، ــــــــــــ اسی طرح ’’مضی‘‘ میں بھی اسلوب حکیم ہے کیونکہ اس سے مراد بھی ’’مات‘‘ہے، اور لوگوں نے یہ معنی مراد لے لیا کہ وہ فضل وکمال کو لے کر چلا گیا اور کسی کے لئے کچھ نہیں چھوڑا۔التمرین - ۲ اگر آپ سے آنے والے سوال پوچھے جائیں اور آپ اسلوب حکیم میں جواب دینا چاہو تو کیسے جواب دو گے؟ (۱) تمہارے باپ کی آمدنی کیا ہے؟ (۲) تمہارا گھر کہاں ہے؟ (۳) اس جوڑے کی قیمت کیا ہے؟ (۴) سیکنڈری میں تم نے کتنے سال گذارے؟