الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
ترجمہ:- جوانی تو چلی گئی اس حال میں کہ اس کے ایام بڑے اچھے تھے، کاش اسے خریدا جاتا یا وہ لوٹ کر آجاتی۔ (۴) کسی شاعر کا شعر ہے ؎ أَ سِرْبَ القَطَا هَلْ مَنْ یُعِیْرُ جَنَاحَهُ لَعَلِّي إِلٰی مَنْ قَدْ هھَوِیْتُ أَطِیْرُ ترجمہ:- اے قطا پرندوں کی جماعت! کیا کوئی ہے جو اپنے پر مجھے عاریت پر دیدے، کاش میں اپنے محبوب کے پاس اڑ کر چلا جاؤں۔ (۵) اللہ تعالی کا ارشاد ہے، يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ (قصص ۷۹) ـــــــــــکاش ہمارے پاس بھی وہ دولت ہوتی جو قارون کو دی گئی۔البحث (مثالوں کی وضاحت) گذشتہ تمام مثالیں انشاء طلبی کے باب سے متعلق ہیں، جب آپ ہر مثال کے اندر مطلوب میں غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ایک ایسی محبوب چیز ہے جس کے حصول کی امید نہیں ہے، یا تو اس کے محال ہونے کی وجہ سے جیسا کہ پہلی چار مثالوں میں، یا تو ممکن ہے مگر اسکے حصول کی توقع نہیں ہے، جیسا کہ آخری مثال میں، اور انشاء کی اس قسم کو ’’تمنی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور گذشتہ مثالوں میں تمنی کا فائدہ دینے والے ادوات، ’’لیت، هھل، لو اور لعل‘‘ ہے، ـــــــــــ مگر پہلے ادات نے تمنی کا فائدہ دیا ہے اپنی اصل وضع کے اعتبار سے، اور باقی تین تمنی کے معنی میں چند بلاغی نکات کی وجہ سے استعمال کئے گئے ہیں، ـــــــــــ یہ تو ہوگیا تمنی، اور اگر وہ محبوب مطلوب ممکن ہواور اسکے حصول کی توقع ہوتو اسکے طلب کرنے کو ’’ ترجی‘‘ کہیں گے، اور ترجی کے لئے ’’ لعل اور عسی‘‘ مستعمل ہیں، ـــــــــــ اور کبھی ترجی کے لئے ’’لیت‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے کسی ایسے سبب کی وجہ سے جو ادیب وبلیغ کو مقصود ہوتا ہے، جیسا کہ متنبی کے شعر میں، ؎ فَیَالَیْتَ بَیْنِی وَبَیْنَ اَحِبَّتِی مِنَ الْبُعْدِ مَابَیْنِی وَبَیْنَ الْمَصَائِبِ