الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
پانچویں مثال میں اللہ تعالی کے ارشاد ’’ وَاٰتُوا الْیَتمٰیٰ أَمْوَالَھهُمْ‘‘ میں غور کرو تو معلوم ہوگا کہ لغت میں یتیم اس چھوٹے بچے کو کہتے ہیں جس کا باپ مرگیا ہو، تو کیا تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے چھوٹے یتیم بچوں کو ان كے باپ کا مال دینے کا حکم دیا ہے؟ یہ بات عقل میں نہیں آتی، بلکہ حقیقت میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کو مال دینے کا حکم دیا ہے جو یتیم ہوکر اب سن بلوغ کو پہنچ گئے، تو ’’یتمٰی‘‘ یہاں مجاز ہے جو بالغین کے لئے استعمال ہوا ہے، اور علاقہ ’’اعتبارماکان‘‘ ہے۔ پھر چھٹی مثال ’’وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِراً كَفَّاراً ‘‘میں غور کرو تو محسوس ہوگا کہ فاجر اور کفار دونوں مجاز ہیں، اس لئے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ فاجر وکافر نہیں ہوتا ہے لیکن وہ کبھی بچپنے کے بعد ایسا ہوجاتا ہے، تو یہاں نومولود کو فاجر بو ل كر فاجر مرد مراد لیا گیا، اور علاقہ ’’اعتبار مایکون‘‘ ہے۔ پھر ساتویں مثال ’’فَلْيَدْعُ نَادِيَه‘‘ میں امر مذاق وتحقیر کے لئے ہے، اس لئے کہ ’’نادي‘‘ کے معنی جمع ہونے کی جگہ (مجلس) ہے، مگر آیت میں مقصد مجلس نہیں ہے بلکہ مجلس والے ــــــــــــــ ، اس کے خاندان کے لوگ، اور اس کے مددگار مراد ہیں، تو یہ مجاز ہے جس میں ’’نادي‘‘ (مجلس) یعنی محل بول كر حال مراد لیا تو علاقہ محلیت کا ہے۔ پھر آٹھویں مثال ’’إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ‘‘ میں نعیم بمعنی نعمت، انسان نعمت میں نہیں رہتاهے کیونکہ یہ تو ایک معنی ہے بلکہ نعمت کی جگہ میں رہتا ہے، تو نعمت کا استعمال یہاں مجاز ہے جس میں حال بول كر محل مراد لیا ہے تو علاقہ حالیت ہے ــــــــــــــ جب یہ بات ثابت ہوگئی ــــــــــــــ جیسا کہ آپ دیکھ چکے --کہ گذشتہ ہر مجاز میں مشابہت کے علاوہ کا علاقہ ہے، ساتھ ہی حقیقی واصلی معنی مراد لینے سے مانع قرینہ بھی ہے تو اب یہ بھی سمجھ لوکہ مجازِ لغوی کی اس قسم کا نام ’’مجاز مرسل‘‘ ہے۔القواعد (قاعدے) (۲۲)مجاز مرسل: وہ کلمہ ہے جو اپنے غیر حقیقی معنی میں استعمال کیا جائے، مشابہت کے علاوہ کسی علاقہ کی وجہ سے، ساتھ ہی حقیقی معنی مراد لینے سے مانع قرینہ بھی ہو۔ (۲۳) مجاز مرسل کے کچھ علاقے یہ ہیں، (۱) سببیت (۲) مسببیت (۳) جزئیت (۴) کلیت (۵) اعتبار ماکان (۶) اعتبار مایکون (۷) محلیت (۸) حالیت