الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(ابراھیم ۴۲) ـــــــــــتمہیں ظالموں سے دھوکے میں نہ ڈالے لشکروں اور مددگاروں کی کثرت (کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے) ہم ان کو ایسے دن کے لئے مؤخر کررہے ہیں جس میں نگاہیں پتھر ا جائیں گی۔ (۲) قاضی سعید بن سنا ء المُلك نے کہا؎ رَحَلُوْا فَلَسْتُ مُسَائِلًا عَنْ دَارِهِمْ أَنَا بَاخِعٌ نَفْسِي عَلٰی آٓثَارِهِمْ ترجمہ:- وہ میرے دوست کوچ کرگئے پس میں ان کے گھر کے بارے میں پوچھنے والا نہیں ہوں، میں تو ان کے پیچھے اپنے آپ کو غم سے ہلاک کردونگا۔ (۳) ابو جعفر اندلسی کا شعر ہے ؎ لَا تُعَادِ النِّاسَ فِی أَوْطَانِهِم قَلَّمَا یُرْعٰی غَرِیْبُ الْوَطَنِ وَإِذَا مَاشِئْتَ عَیْشًا بِئْنَهُمْ خَالِقِ النَّاسَ بِخُلْقٍ حَسَنٍ لوگوں سے ان کے وطنوں میں دشمنی نہ کر، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ پردیسی کا لحاظ کیا جائے، ـــــــــــ اگر تو ان کے درمیان زندگی گذارنا چاہتا ہے تو لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق برت۔البحث (مثالوں کی وضاحت) پہلی دو مثالوں میں بین القوسین دونوں عبارتیں قران کریم سے ماخوذ ہیں، اور تیسری مثال میں بین الفوسین عبارت حدیث شریف کی ہے، ادیب یا شاعر نے اپنے کلام میں ان اثار شریفہ کو شامل کرلیا ہے، بغیر صراحت کئے اسکے کہ یہ قران یا حدیث کا حصہ ہے، اور اس تضمین کا مقصد یہ ہے کہ ان آثار کی قوت سے کلام میں قوت پیدا کرے، اور اپنے کلام اور ماخوذ کلام کے درمیان تعلق کی مضبوطی میں اپنی مہارت ظاہر کرے، اور اس قسم کا نام ’’اقتباس‘‘ ہے، اور جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اقتباس کرنے والے نے ان آثار میں تھوڑی تبدیلی بھی کردی ہے جن کو اس نے لیا ہے، جیسا کہ دوسری مثال میں ہے، کیونکہ آیت تو (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ) ہے، اور پہلی مثال میں ’’نؤخرهھم‘‘ کی جگہ ’’یؤخرهم‘‘ شاعر لایا ہے۔