الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
پنڈلی شتر مرغ کی پنڈلی جیسی ہے، اور اس کے بال سیاہ مرچ جیسے ہیں۔ (۱۱) ابن شہید اندلسی نے ایک پسو کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے وہ سیاہ حبشی ہے، پالتو بھی ہے اور جنگلی بھی، اور نہ ہی وہ سست ہے اور نہ کمزور ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ رات کا غیر منقسم حصہ ہے، یا روشنائی کا ایک نقطہ ہے، یا وہ قلب کا سیاہ نقطہ ہے ، ـــــــــــ اس کا پینا بغیر چوسے ہوتا ہے ـــــــــــ اس کا چلنا اچھل کود ہے ـــــــــــ دن میں چھپا رہتا ہے ـــــــــــ رات میں چلتا ہے ـــــــــــ پے در پے تکلیف دہ ڈنک مارتا ہے ـــــــــــ اور مجرم وبری ہر ایک کے خون کو مباح سمجھتا ہے ـــــــــــ شہ سواروں پر بھی حملہ کرتا ہے ـــــــــــ اپنی تلوار برہنہ کرتا ہے ظالموں پر ـــــــــــ اس سے نہ تو کوئی حاکم بچ سکتا ہے، ـــــــــــ اور نہ اس میں کسی غیرت مند کی غیرت نفع دے سکتی ہے ـــــــــــ اور وہ بہت ہی حقیر ہے ـــــــــــ اس کا شر عام ہے ـــــــــــ اس کا وعدہ پورا ہونے والا نہیں ہے ـــــــــــ اور انسان کے لئے یہی نقصان کافی ہے ـــــــــــ اور اللہ کی قدرت پر یہی دلیل کافی ہے۔حل تمرین - ۱ (۱) تشبیہ کی غرض ’’بیان امکان مشبہه‘‘ ہے، اس لئے کہ شاعر نے جب اپنے ممدوح کو پستی اور بلندی سے متصف کیا، تو یہ دونوں وصف باہم متضاد تھے، اس لئے تشبیہ کو بیان کیا تاکہ بتلائے کہ یہ ممکن ہے۔ (۲) اس تشبیہ کی غرض’’تزیین المشبہه‘‘ہے، اس لئے کہ شاعر نے اپنی محبوبہ کو دل کے سیاہ نقطہ سے تشبیہ دی جو کہ انسان میں مرکز زندگی ہے۔ (۳) اس میں تشبیہ کی غرض’’ تقریر حال المشبہه‘‘ ہے، اس لئے کہ عالم کے چھپانے کے باوجود اس کے فضل کا ظہور حسی مثال کے ذریعہ ذہن نشین کرانے کا محتاج ہے۔ (۴) اس تشبیہ کی غرض بھی ’’ تقریر حال المشبہه‘‘ ہے، اس لئے کہ شاعر لیلی کے ساتھ اپنی حالت کو تشبیہ دے رہا ہے ایسے شخص سے جو پانی کو پکڑنا چاہتا ہے، اور اس کو اپنی پھیلی ہوئی ہتھیلی میں روکنا چاہتا ہے، اور پانی اس کی انگلیوں کے بیچ سے نکل کر بہہ جاتا ہے۔ (۵) یہاں تشبیہ کی غرض ’’تقبیح المشبہه‘‘ ہے، اس لئے کہ بندر کا قہقہہ لگانا اور بڑھیا کا طمانچہ مارنا دونوں ناپسندیدہ چیزیں ہیں۔