الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اس شعر میں شاعر نے آنسوؤں کو موتی سے تشبیہ دی، آنکھوں کو نرگس سے، رخسار کو گلاب سے، دانتوں کو اولے سے، اور مہندی لگی ہوئی انگلیوں کو عناب پھل سے تشبیہ دی ہے -- یہ سب عمداً تکلف اور تصنع ہے اس کی وجہ سے اس کا حسن وجمال نہیں رہا۔ اس پوری وضاحت سے آپ کے لئے یہ جاننا بالکل آسان ہوگیا کہ اس اسلوب کا اصل منبع اور مقام شعر اور نثر ہی ہیں، انہی میں یہ اسلوب پروان چڑھتا ہے، اور فن وجمال کی بلندی پر پہنچتا ہے۔اسلوبِ خطابی :- تیسری قسم اسلوبِ خطابی ہے، اس اسلوب میں معانی اور الفاظ کا زور نمایاں ہوتا ہے، اور دلیل وبرہان اور تروتازہ عقل کی قوت ظاہر ہوتی ہے، -- اس اسلوب میں ایک خطیب اور مقرر اپنے سامعین کے ارادے سے ہم کلام ہوتا ہے تاکہ ان کے عزائم وخیالات کو برا نگیختہ کرے اور ان کے حوصلوں کو بلند کرے-- اور اس اسلوب کی خوبصورتی ، اور اس کی وضاحت وظہور کا بڑا دخل ہے اس اسلوب کے مؤثر ہونے اور سامعین کے دلوں کی گہرائیوں تک اس کے پہنچنے میں، -- اور اس اسلوب کی اثر اندازی میں جو چیز چار چاند لگاتی ہے وہ ہے سامعین کے دلوں میں خطیب کا مقام ومرتبہ ، اور اس کا زورِ بیان، اس کی دلیل کی مضبوطی ، اس کی آواز کا اتار چڑھاؤ، اس کا حسنِ بیان اور اس کا ٹھوس اشارہ، (ان سب چیزوں سے اس اسلوب کی تاثیر بڑھ جاتی ہے)۔ومن اظھر ممیزات :- اس اسلوب کی نمایاں خصوصیت الفاظ کا تکرار، مترادفات کا استعمال، کہاوتوں کا بیان کرنا، اور بھاری بھرکم اور زور دار کلمات کا استعمال کرنا ہے، -- اس اسلوب میں بہتر ہے کہ مختلف تعبیریں یکے بعد دیگرے بدلتی رہیں، اخبار سے استفہام کی طرف، اور استفہام سے تعجب کی طرف، اور تعجب سے انکار کی طرف، اور اس اسلوب میں وقف کے مقامات مضبوط ہوں اور دل کے لئے تشفی بخش ہوں (مطلب یہ کہ مقرر ایک مضمون کو مختلف پیرایوں سے باربار بیان کرے، مترادف الفاظ استعمال کرے، کہاوت وامثال بیان کرے، نیز تعبیرات بدلتا رہے، کبھی خبر کی شکل میں، کبھی استفہام کی شکل میں، کبھی تعجب کے انداز میں، کبھی انکار کی صورت میں اپنا بیان پیش کرے، ایک ہی تعبیر نہ اختیار کرے، نیز بیان میں ایسی جگہ ٹھہرے جہاں مضمون پورا ہو، سامعین کے دلوں کو تشفی ہو وغیرہ)۔ اس اسلوب کی سب سے بہترین مثال حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ تاریخی خطبہ ہے، جو آپ نے اس وقت