الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
تنقیدی جائزہ لینا اور ان کے درمیان موازنہ کرنا، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو اپنی ذات پر ایسا اعتماد اور بھروسہ ہو کہ جس کو وہ اچھا سمجھتا ہے اس کے بہتر ہونے کا، اور جس کو وہ قبیح سمجھتا ہے اس کے قبیح ہونے کا فیصلہ کرسکے (یعنی اس کو اپنے اوپر خود اعتمادی حاصل ہو)۔ اگر دیکھا جائے تو ایک بلیغ اور آرٹسٹ کے درمیان بس اتنا ہی تو فرق ہے کہ بلیغ سنے ہوئے کلام سے بحث کرتا ہے، اور آرٹسٹ دکھائی دینے والے مختلف رنگوں اور شکلوں کے درمیان نقشہ گری کرتا ہے پس، اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے، چنانچہ آرٹسٹ جس کسی صورت کی نقشہ گری کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے مناسب رنگوں میں غور وفکر کرتا ہے، پھر ان رنگوں کو اس طرح ترتیب دینے میں غور وفکر کرتا ہے کہ وہ تصویر جاذب نظر اور جذبات کو ابھارنے والی ہو، -- اور بلیغ جب کوئی قصیدہ یا مقالہ یا خطبہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اس کے اجزاء میں غور وفکر کرتا ہے، پھر ایسے الفاظ اور اسلوب کا انتخاب کرتا ہے جو سننے میں ہلکے پھلکے ہوں اور اپنے موضوع سے زیادہ وابستہ ہوں، اور سامعین کے دلوں میں زبردست اثر انداز ہوں اور نہایت حسین ہوں۔ بلاغت کے عناصر:- پس ایسی صورت میں بلاغت کے عناصر لفظ اور معنی اور الفاظ کو اس طرح ترتیب دینا کہ جس سے کلام میں قوت، تاثیر اور حسن پیدا ہو پھر (ایک عنصر یہ بھی ہے کہ) کلام کے مقامات، کلام کے مواقع اور اس کے موضوعات اور سامعین کی حالت کے مطابق کلمات اور اسلوبوں کے انتخاب میں باریک بینی (سے کام لینا) ہے، پھر اس قلبی جذبہ کو بھی پیش نظر رکھنا ہے جو سامعین کے دلوں پر قابو پالے اور ان کے نفوس پر غلبہ پالے، اس لئے کہ بسا اوقات ایک کلمہ ایک مقام میں بہتر ہوتا ہے اور وہی کلمہ دوسرے مقام میں ناموزوں اور ناپسندیدہ ہوتا ہے، قدیم زمانے سے ادباء شعراء کلمۂ ’’ ایضاً ‘‘ کو ناپسند کرتے چلے آرہے تھے، اور اس کو علماء کے الفاظ میں سے شمار کرتے تھے، (یعنی علماء اس کو استعمال کرتے ہیں یہ ادبی کلمہ نہیں ہے) اسی لئے کسی نثر یا نظم میں ادباء ، شعراء کے قلم اس لفظ پر نہیں چلے، یہاں تک کہ ان کے درمیان ایک شاعر ظاہر ہوا جس نے اس کلمہ کو استعمال کیا اس شعر میں ؎ رُبَّ وَرْقَاءَ هھَتُوْفٍ فِی الضُّحیٰ ذَاتِ شَجْوٍ صَدَحَتْ فِی فَنَنٍ ترجمہ:- بہت سی غمگین سفید سیاہی مائل کبوتری چاشت کے وقت شاخ پر بیٹھ کر چہچہائیں