الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
شاعر اپنے ممدوح میں تمام فضائل وکمالات کو سمیٹتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ آدمؑ ساری مخلوق کے باپ کیسے ہوسکتے ہیں، جب کہ آپ کے باپ محمد ہیں اور آپ جن وانس ہیں، -- اس مثال میں مبتدا خبر یعنی ’’ أَبُوْكَ مُحَمَّدٌ‘‘ کے درمیان فصل ہے، ’’وَالثَّقَلَانِ أَنْتَ‘‘ میں خبر کو مبتدا انت پر اس طرح مقدم کیا ہے کہ اس کے مفہوم میں اشتباہ پیدا ہورہا ہے، مصنفؒ فرماتے ہیں کہ متنبی کے شعر میں تصحیح کے لئے مذکوره تکلفات اٹھانے کے باوجود متنبی کا کلام لغو اور بے ہودگی سے خالی نہیں ہے۔ چوتھی شرط:-فصاحتِ کلام کی چوتھی شرط یہ ہے کہ کلام تعقید ِمعنوی سے خالی ہو، -- تعقید ِمعنوی اس کو کہتے ہیں کہ متکلم کسی مفہوم کو بیان کرنے کا ارادہ کرے، اور اس میں کلمات کو اس کے حقیقی معنی کے علاوہ میں استعمال کرے جس سے معنیٔ مرادی کے لئے کلمات کا انتخاب غلط ہوجائے گا، اور تعبیر غیر موزوں ہوگی اور سننے والے پر معاملہ مشتبہ ہوجائے گا۔ تعقید معنوی کی مثال:- جیسے کلمۂ ’’لِسَانٌ‘‘ جو لغت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ ‘‘ ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان بولنے والا، -- اس مفہوم میں ’’لسَانِ ‘‘ کا استعمال فصیح صحیح ہے، لیکن اگر کوئی اس کلمہ کو بول کر اس سے جاسوس کے معنی مراد لے جیسے ’’بَثَّ الْحَاکِمُ أَلْسِنَتَہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ‘‘ کہ بادشاہ نے شہر میں اپنے جاسوس پھیلادئے -- تو یہ استعمال غلط ہوگا، اور اس میں تعقیدِ معنوی پائی جائے گی۔ تعقید معنوی کی دوسری مثال:- امرؤ القیس کا یہ شعر بھی ہے جو اس نے گھوڑے کی تعریف میں کہا ہے ؎ وَاَرْکَبُ فِی الرَّوْعِ خِیْفَانَةً کَسَا وَجْههھَھَا سُعُفٌ مُنْتَشِرُ ترجمہ:-میں گھبراہٹ اور خوف کے وقت ایسے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوجاتا ہوں، جس کے چہرے کو ڈھانک رکھا ہے بکھرے ہوئے كھجورکے پتوں نے۔ اس شعر میں ’’خِیْفَانَۃً ‘‘ کے اصل معنی ٹڈی کے ہیں، اس سے تیز رفتار گھوڑا مراد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ گھوڑے کو ٹڈی سے تشبیہ دینا ضعف سے خالی نہیں ہے مگر کوئی مضائقہ نہیں، لیکن گھوڑے کا یہ وصف بیان کرنا کہ اس کی پیشانی کے بال كھجورکے پتوں کی طرح لمبے ہیں جس نے اس کے چہرے کو بھی ڈھانپ رکھا