ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
عنک وزرک الذیں انقض ظہرک یہ شرح صدر اور وضع وزر جو موجب نقص ظہر تھا میرے نزدیک اسی طرف اشارہ ہے اور آیت لو انزلنا ھذا القرآن علی جبل اس معنی میں بھی بہت ہی صاف ہے اور نماز اور تلاوت اور ذکر کی مزاولت اور کثرت سے قوت کا پیدا ہونا اور ثقل وحی کے احتمال کی طاقت پیدا ہوجانا اس طور پر ہے کہ چونکہ ذکر وغیرہ سے واردات اور فیوض غیبیہ عملی وعلمی قلب پر فائض ہوتے ہیں ان کے در ود سے قلب میں بتدریج قوت پیدا ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے شدت وثقل کا مقابلہ اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے چنانچہ اہل تلوین کا اضطراب اور اہل ملین کا استقلال اسی وجہ سے ہے کہ پہلے قلب میں قوت تحمل کی نہ تھی پھر ذکر کی کثرت سے احتمال اثقال کی طاقت آگئی اور اس شعر میں ان ہی واردات میں سے بعض کا ذکر ہے بینی اندر خود علوم انبیاء بے کتاب وبے معید و اوستا اور یہ حالات وارد وہ مختلف قسم کے ہوتے ہیں کبھی ذوق وشوق وسرور وانبساط ہوتا ہے کبھی حزن وانقباض ہوتا ہے ۔ بسط کے الگ فائدے ہیں اور قبض کے علیحدہ مصالح اور سب محمود ہیں کیونکہ قبض میں بھی تزکیہ نفس اوصلاح عجب ہوتی ہے ۔ چونکہ قبض آمد تو دروے بسط بیں تازہ باش وچیں میکفن بر جبیں چونکہ قبض آید ترا اے راہرو آں صلاح تست آئس دل مشو آگے ارشاد ہوتا ہے کہ ان ناشئۃ اللیل ھی اشد وطا واقوم وقیلا اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ رات کو اٹھنے کے وقت کیونکہ شور وشغب سے سکون ہوتا ہے اور افعال معاش کا بھی وقت نہیں ہوتا اس لئے قلب میں یکسوئی ہوتی ہے اور اس لئے اس وقت جو کچھ زبان سے پڑھا جاتا ہے دل کو اس سے بہت تاثیر ہوتی ہے اور جو کچھ کیا جاتا ہے اس کا اثر قوی ہوتا ہے تو گویا اس آیت میں ان ناشئۃ اللیل الخ مضمون آیت ماقبل قم اللیل ورتل القرآن الخ کی تعلیل ہے کہ اس وقت بوجہ ان اسباب کے حضور قلب زیادہ ہوتا ہے ۔ لہذا قیام لیل وترتیل کا فائدہ اس وقت پورے طور حاصل ہوگا ۔