ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
تربیت دینی ہوتو اس کو توکل ودینی خدمت سے بہتر کوئی کام نہیں البتہ یہ ضروری بات ہے کہ توکل صرف اللہ پر ہو ۔ لوگوں کو ہدایا وتحف کے طرف نفس کا اشراف نہ ہو حدیث میں من غیر اشراف نفس کی قید آئی ہے ورنہ وہ تو کل علی اللہ نہیں ۔ غرض لوگوں کے اموال کی تاک میں نہ بیٹھا رہے ۔ اس مقام پر ایک نکتہ سننے کے قابل ہے وہ یہ کہ بعض اوقات اہل کشف کو کشف سے آمد معلوم ہوکر مال کی طرف اشراف نفس پیدا ہوجاتا ہے یا بعض اوقات اموال مشتبہ کی حقیقت ظاہر ہوکر مال حلال ملنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ سو کشف نہ ہونا بھی اللہ تعالٰی کا بڑا احسان ہے کہ عمل بالسنہ میں مخل نہیں ہوتا ۔ حکایت : اشراف کے متعلق بلگرام کے ایک بزرگ عالم کا قصہ یاد آیا کہ ان کے خاص شاگرد یا مرید ان کے پاس آئے ۔ شیخ کے اضمحلال اور ناتوانی کو دیکھ کر انہوں نے جانچ لیا کہ آج فاقہ ہے ۔ شیخ نے فرمایا کہ گو یہ پہنچا ہے حاجت کے وقت لیکن مجھ کو اس کے قبول کرنے میں ایک عذر ہے اس واسطے کہ جس وقت تم میرے پاس سے اٹھ گئے تھے اس وقت میرے دل میں خیال آیا تھا کہ کھانا لائیں گے کیونکہ میرے دل کا تعلق اور اشراف نفس اس کیساتھ ہوگیا اور ایسی حالت میں ہدیہ لینا خلاف سنت ہے ۔ اس لئے اس کے لینے سے معذور ہوں ماشاء اللہ مرید یا شاگرد تھے سمجھدار کہ ذرا اصرار نہ کیا جیسا کہ بعض کم فہم لوگوں کی عادت ہے کہ بزرگوں سے جھک جھک کیا کرتے ہیں حالانکہ نہایت سوء ادب ہے بلکہ فورا کھانا لے کر اٹھ گئے اور ادھے راستے سے پھر لوٹ آئے اور وہی کھانا پھر پیش کیا اور عرض کیا کہ حضرت لیجئے اب تو میرے واپس چلے جانے سے اشراف نہیں رہا ہوگا ۔ اب قبول فرمالیجئے ۔ شیخ نے قبول فرمالیا اور ان کے اس نکتہ رسی اور ذہانت پر آفرین فرمائی ۔ آپ نے سنا بزگان دین نے اشراف سے کس قدر تحرز کیا ہے ۔ غرض توکل کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اشراف نہ ہو اور بدون اس کے اگر توکل ہوتو محمود ہے اور جوتو کل کے شرائط نہ ہوں تو تدبیر مسنون ہے بالجملہ افراط وتفریط دونوں سے برکنار رہے اور اعتدال اختیار کرے گر تو کل میکنی درکان کن کسب کن پس تکیہ برجبار کن