ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
اختیار سے خارج ہوتا ہے وہاں مجبور ہوکر دعا کرتے ہیں ورنہ تدبیر پر اعتماد ہوتا ہے بلکہ امور اختیار یہ بھی دعا کی سخت ضرورت ہے اور ہر چند کہ ان کا وجود اور ترتب بظاہر تدبیر اور اسباب پر مبنی ہے لیکن اگر غور کرکے دیکھا جائے خود ان اسباب کا جمع ہوجانا واقع میں وغیرہ اختیاری ہے ۔ اور اس کا بجز دعا اور کوئی علاج نہیں ۔ مثلا کھیتی کرنے میں ہل چلانا بیج بونا وغیرہ تو اختیاری ہے مگر کھیتی اگنے کے واسطے جن شرائط اور اسباب کی ضرورت ہے وہ اختیار سے باہر ہیں مثلا یہ کہ پالا نہ پڑے یا کوئی اور ایسی آفت نہ پڑے جو کھیتی کو اگنے نہ دے ۔ اس لئے اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں کو افرایتم ماتحرثون اانتم تزرعونہ ام نحن الزرعون الخ پھر ان سب کو احتیاج ہے تعلق مشیت خداوندی کی اور صاف ظاہر ہے کہ وہ عباد کے اختیار میں نہیں ۔ پس ثابت ہوگیا کہ امور اختیار یہ میں بھی تدابیر اور کسب کے ساتھ دعا کی ضرورت ہے ۔ خصوصا جب کہ اس پر نظر کی جائے کہ ہم جن اسباب کو اسباب سمجھتے ہیں ۔ وہ بھی حقیقت برائے نام ہی اسباب ہیں ورنہ اصل میں ان میں بھی وصف سبیت بمعنی تاثیر محل کلام میں ہے ۔ بلکہ احتمال ہے کہ عادت اللہ اس طرح جاری ہوکہ ان کے تلبس واقتران کے بعد حق تعالٰٰی اس اثر کو ابتداء پیدا نہ فرمایا تو جو شخص اس راز کو سمجھ گیا وہ کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کے سرد ہونے میں تعجب نہیں کرے گا کیونکہ اگر تعجب ہے تو تاثیر کے مسلوب ہونے میں ہیں اور اثر پیدا نہ ہونا چنداں عجب نہیں بالجملہ ان اسباب کے تاثیر کی ایسی مثال معلوم ہوتی ہے کہ جیسے سرخ جھنڈی دکھانے سے ریل رک جاتی ہے اب کوئی ناداں یہ سمجھے کہ سرخ جھنڈی میں کوئی تاثیر ہے جس سے ریل رک جاتی ہے تو یہ اس کی نادانی ہوگی ۔ سرخ جھنڈی سے تو کیا رکتی وہ تو کسی چلانے والے کے روکنے سے رکی ہے ۔ سرخ جھنڈی اصطلاحی علامت قراردی گئی ہے ۔ یہی مثال ہے اسباب اور ترتب اثر کی ۔ اصل کام تو اللہ تعالٰٰی کے اختیار میں ہے یہ اسباب وعلامات محض عباد کی تسلی ودیگر حکمتوں کے لئے مقرر فرمادیئے ہیں