ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
سید خلون جھنم داخرین اس آیت کے مضمون ہی سے سمجھ میں آگیا ہوگا کہ مقصود بیان تنبہیات متعلقہ دعا ہے اور شاید کسی کو یہ خیال ہو ہم تو دعا کیا کرتے ہیں اور اس کی ضرورت وغیرہ کو بھی جانتے ہیں پھر کیوں تنبیہ کی جاتی ہے کیونکہ تنبیہ تو اس امر میں ضرورری ہے جس کو جانتا نہ ہو یا کرتا نہ ہو - سو ضرورت تنبیہ کی یوں ہے کہ باوجود جاننے اور کرنے کے بھی جب دعا کے بارہ میں تغافل برتا جاتا ہے یعنی اس کے ضروری آداب و شرائط سے بے پروائی کی جاتی ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ جانی ہوئی چیزوں سے بھی بڑھ کر کوئی حجاب قوی ہے کیونکہ مجہولات میں تو صرف جہل حجاب ہے کہ اس کا دافع ہونا سہل ہے اور جانی ہوئی چیز میں جب ایسا معاملہ کیا جائے تو وہ حجاب زیادہ سخت ہوگا - اور ہر چند کہ یہ تغافل اور قلب کا حاضر نہ ہونا سب عبادات میں قبیح ہے - مگر دعا میں اقبیح ہے - وجہ یہ کہ عبادات میں گو اصل مقصود معنیٰ ہے مگر تاہم ایک درجہ میں صورت بھی مقصود ہے اور وہ نیاز و افتقار وانکسار وخشوع قلب ہے جب یہ بھی نہ ہوا تو وہ دعا کیا ہوئی بیان اس کا یہ ہے کہ مثلا نماز ہے کہ قرائن سے اس میں علاوہ مقصود معنوی یعنی توجہ الی اللہ کے صورت بھی مراد اور مطلوب ہے کہ اس کے قیود ظاہری سے مفہوم ہوتا مثلا وضو جہت قلبہ وقت تعین رکعات وغیرہ اب اگر کوئی شخص بغیر حضور قلب کے رکوع وسجود وغیرہ شرائط سے نماز پڑھ لے تو گو مقصود معنوی توجہ الی اللہ اس میں نہیں ہوئی مگر فقیہ عالم یہی حکم دے گا کہ فرض ادا ہوگیا - اس سے ثابت ہوا کہ صورت بھی کسی درجہ میں مطلوب ہے اور اسی کے تحقیق سے صحت صلوٰۃ کا فتویٰ صحیح ہوا - اس تقریر سے بے دینوں کا یہ شبہ بھی رفع ہوگیا جو کہا کرتے ہیں کہ صاحب دل تو حاضر نہیں پھر نماز کیا پڑھیں - معلوم ہوا کہ علاوہ حضور قلب کے کہ معنی اور حقیقت ہے نماز کی یہ صورت ظاہری رکوع سجود بھی مقصود - دوسری نظیر لیجئے روزہ سے مقصود معنوی قوت یہیمیہ کا توڑنا اور مغلوب کرنا مطلوب ہے مگر باہیں ہمہ اگر کوئی شخص سحری کو ایسا پیٹ بھر کھائے کہ افطار تک اس کو بھوک ہی نہ لگے تو اس صورت میں قوت بہیمیہ تو کچھ بھی نہیں ٹوٹی مگر روزہ کی چونکہ ظاہری صورت پوری ہوگئی ہے روزہ صحیح ہوگا - تیسری نظیر اور لیجئے زکٰوۃ کہ مقصود