ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
خیر من العباس اجرک بعدہ واللہ خیر منک للعباس مطلب یہ ہے کہ آپ صبر کیجئے ہم بھی آپ کی وجہ سے صبر کریں گے کیونکہ چھوٹوں کا صبر بڑوں کے صبر کے بعد ہوتا ہے اور اس واقعہ میں نہ تمہارا کچھ نقصان ہوا بلکہ نفع ہی ہے اور وہ نفع یہ ہے کہ تم کو ثواب ملا اور وہ ثواب تمہارے لئے حضرت عباس سے بہتر ہے اور حضرت عباس کا بھی کچھ نقصان نہیں ہوا اس لئے کہ وہ خدا تعالی سے مل گئے اور اللہ تعالی عباس کے لئے تم سے بہتر ہے یعنی تمہارے پاس رہنے سے اللہ کے پاس رہنا بہتر ہے یہ عجیب مضمون ہے حقیقت میں موت ایسے ہی آرام کی چیز ہے حدیث میں آیا ہے کہ نوت مومن کا تحضفہ ہے اور انسان کی حالت یہ ہے کہ اس سے بھاگتا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ عالم کو دیکھا نہیں موت ایک ریل ہے گاڑی کی طرح ہے جیسے گاڑی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتی ہے اسی طرح موت اس عالم سے دار الآخرت میں پہنچا دیتی ہے جب گاڑی میں آدمی بیٹھا ہے تو اس کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ میرے لئے وہاں کیا کیا تیار ہو رہا ہے ۔ جب ریل سے اسٹیشن پر اترے دیکھا تو وہاں طرح طرح کے سامان ہیں ۔ ایک مخلوق استقبال کے لئے کھڑی ہے اقسام اقسام کی نعمتیں کھانے پینے کی موجود ہیں تو اس وقت جاننا ہے اللہ اکبر یہاں تو ہمارے لئے بڑا سامان ہے اور جہاں سے آیا تھا وہ سب اس کی نظر میں ہیچ معلوم ہوتا ہے بلکہ اسکا خیال تک بھی نہیں آتا اسی طرح اس دنیا کا حال ہے کہ اس وقت یہاں کچھ خبر نہیں لیکن جب یہاں سے رحلت ہوگی تو ان شاء اللہ تعالی وہاں دیکھ لیں گے کہ یہاں ہمارے لئے کیا نعمتیں ہیں اور بزرگوںنے بصرہ 1؎ سے بصیرت سے دیکھا ہے ۔ اس لئے ان کی نظر میں دنیا کی کوئی وقعت نہٰں ہے ۔ دنیا کا عالم آخرت کے ساتھ وہ نسبت ہے جو ماں رحم کو اس دنیا کے ساتھ ہے ۔ جیسے بچہ اپنی رضا مندی سے دنیا مین نہیں آتا ۔ اسی طرح آدمی وہاں جانا نہیں چاہتا اور جیسے بچہ ماں کے رحم ہی کو سمجھتا ہے کہ تمام جہاں یہی ہے اور آگے اس کی نظر ہی نہیں جاتی اور جب ماں کے رحم سے نکلتا ہے تو حقیقت معلوم ہوتی ہے اسی طرح ہم لوگ جب یہاں سے جاویں گے تو اس دنیا کی حقیقت معلوم ہوتی ہو گی ۔ بہر حال موت ہر طرح سکون 1؎ اور آرام کی شے ہے ۔ اسی واسطے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا نے فرمایا ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ آنکھ کی بینائی سے دل کی بینائی سے