ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
اور ان حضرات کو چونکہ مرنے کی خوشی ہوتی ہے اس لئے اس میں نہایت مطمئن ہوتے ہیں چنانچہ ایک نقشبندی بزرگ کی حکایت ہے کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ جب میرا جنازہ لے چلو تو ایک شخص یہ اشعار ساتھ ساتھ پڑھتا چلے ۔ مفلسا نیم آمدہ در کوئے تو شئی للہ از جمال روئے تو ( ہم مفلس ہیں آپ کے کوچہ میں حاضر ہوئے ہیں اپنے روئے مبارک کے جلوہ سے اللہ لے لئے کچھ عطا ہو ) دست بکشا جانب زنبیل ما آفریں بر دست و بر بار دئے تو ( ہماری زنبیل ( جھولے ) کی طرف بھی ہاتھ بڑھا دجئے آپ کے بازو اور ہاتھ پر آٖفریں اور شاباش ہو ) کیوں صاحب کیا بے اطمینانی میں کسی کو ایسی فرمائشوں کی سوجھ سکتی ہے یہ غایت فرحت کا اثر ہے ۔ حضرت سلطان نظام الدین اولیاء قدس سرہ کی مشہور حکایت ہے کہ جب آپ کا انتقال ہو گیا اور جنازہ لے چلے ایک مرید نے شدت غم میں درد کے ساتھ یہ اشعار پڑھے ۔ سرد سمینا بصحرا میروی سخت بے مہری کہ بے ما میروی اے چاندی جیسے مرد تم جنگل میں جا رہے ہو بڑی بے وفائی ہے کہ ہمارے بغیر جا رہے ہو ) اے تماشا گاہ عالم روئے تو تو کجا بہر تماشا میروی ( اے وہ ذات کہ سارے عالم کے تماشا و خوشی کی جگہ تو تمہارا چہرہ ہے تم اب تماشا کے لئے کہاں جا رہے ہو ) لکھا ہے کہ ہاتھ کفن کے اندر بلند ہو گیا ۔ صاحبو ایک ایسا شخص جس کی یہ حالت ہو کہ ؎ پا بدست دگرے دست بدست دگرے ( پیر دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دوسرے کے ہاتھ میں یعنی بعد فوت )