ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
ایک وسعت نظر آتی ہے - اور اس کو کہا جاتا ہے نعم کنومۃ العروس ( بس سو جا دلہن کی طرح کا سونا ) اور اگر وہ کافر ہوتا ہے اس کے پاس نہایت ہولناک صورت میں آتے ہیں اور جو سوال اس سے کیا جاتا ہے وہ جواب میں لا ادری یعنی میں نہیں جانتا کہتا ہے - اس کے لئے قبت تنگ ہوجاتی ہے اور اس کو اس قدر دباتی ہے کہ اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں - گرزوں سے اس کو مارتے ہیں اور سانپ اور بچھو اس کو ڈستے ہیں - غرض انواعع انواع کے عذاب میں مبتلا رہتا ہے - معتزلہ اور ہمارے نو تعلیم یافتہ ان احادیث کا بالکل انکار کرتے ہیں - اور کہتے ہیں کہ ہم تو قبر کو کھود کر دیکھتے ہیں نہ اس میں فرشتہ ہے نہ گرز ہے نہ وسعت ہے نہ سانپ ہیں نہ بچھو ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ایک آدمی کو بھیڑیا کھالے یا دو شیر کھالیویں تو وہاں کسی طرح یہ سوال و جواب ہوں گے اور کیسے وہاں وسعت ہوگی اور وہاں سانپ بچھو کہاں ہیں - ہم تو صریحا یہ دیکھتے ہیں کہ بھیڑیئے اور شیر کے پیٹ میں نہ سانپ ہیں نہ بچھو ہیں نہ گرز ہیں - بات یہ ہے ؎ جنگ ہفتا دو دو ملت ہمہ را عذر بنہ چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند ( بہتر فرقوں کی جنگ کو معذوری سمجھ لو جب لوگ حقیقت کو نہ پاسکے تو انہوں نے غلط خیالات بنا لئے ) وجہ یہ کہ خود علم نہیں اور علماء کے اتباع سے عار آتی ہے حالانکہ سلامتی کی بات یہ ہے کہ اپے سے زیادہ جاننے والے دامن پکڑنا چاہیے کاش اگر ہم پوچھ لیتے تو پتہ لگ جاتا ان تمام شبہات کا منشاہ یہ ہے کہ قبر نام اس گڑھے کا رکھ لیا ہے حالانکہ قبر سے مراد احادیث میں یہ گڑھا نہیں ہے بلکہ مراد قبر سے عالم برزخ ہے - اور عالم برزخ اس گڑھے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ برزخ اس حالت کا نام ہے جو آخرت اور دنیا کے درمیان کی حالت ہے - اگر قبر میں دفن کردیا وہی اس کا برزخ ہے اس سے وہاں ہی سوال جواب وعذاب و ثواب ہوگا اور اگر بھیڑیئے و شیر نے کھالیا اس کے لئے وہی برزخ ہے - اور اگر جلا دیا تو جہاں جہاں اس کے اجزاء ہیں اس سے وہاں ہی یہ سب واقعات پیش آئیں گے لیکن چونکہ شریعت میں دفن کرنے کا حکم ہے اس لئے عالم برزخ کو قبر سے تعبیر فرمایا ہے حاصل یہ ہے کہ قبر کے متعلق