ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
ملفوظات حکیم الامت جلد ۔ 27 ۔ کاپی ۔ 17 یکے قطرہ از ابر نیساں چکید خجل شد جو پہنائے دریا بدید ( برسات کے مہینہ کے بادل سے ایک قطرہ ٹپکا جب سمندر کی چوڑائی دیکھی تو شرمندہ ہو گیا ) کہ ایک قطرہ ابر سے (1) انا کذا و انا کذا کہتا ہوا چلا مگر دریا کی وسعت دیکھ کر شرمندہ ہو گیا ۔ اور باوجود یہ کہ اپنے اندر نورانیت اور شفافی سب کچھ پایا تھا لیکن کہتا ہے ۔ کہ جائیکہ اوہست من نیستم گراوہست حقا کہ من نیستم ( کہ جہاں وہ ہے میں تو نہیں ۔ اگر وہ ہے تو حق یہ ہے کہ میں تو بالکل کہتا ہوں کہ میں نہیں ہوں ) اس کے بعد شیخ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہمہ ہرچہ ہستند ازاں کمترند کہ باہستیش نام ہستی برند ( یہ سب جو کچھ ہے ان کے سامنے اس سے بہت ہی کم ہے کہ ان کے وجود کے سامنے اپنے وجود کا نام بھی لے لیں ) اگرچہ سب موجود ہیں لیکن ذات باری کے سامنے سب کی ہستی ہیچ ہے ۔ زیادہ وضوح کے لئے اس کو ایک مثال میں سمجھو مثلا کسی گاؤں میں جہاں سب جاہل ہوں ایک شخص قل (2) ھو اللہ کا حافظ ہو اور تمام گاؤں کے لوگ اس کو حافظ کہتے ہیں ۔ اتفاق سے اسی گاؤں میں کوئی ماہر قاری آ جائے جس کو علاوہ حفظ قرآن شریف و مشق کے سبعہ میں بھی مہارت ہو اور اس قاری کے سامنے کوئی شخص اس قل ھو اللہ کے حافظ کو حافظ کہہ کر پکارے تو اندازہ کیجئے کہ اس کی کیا حالت ہو گی ۔ شرم سے گڑ جائے گا ۔ اور اپنے کو قاری کے سامنے ہیچ تصور کرے گا ۔ اور اسی پر کیا منحصر ہے ہر شخص کے تمام دعاوی (3) انانیت اس وقت تک ہیں کہ جب تک اپنے اوپر نظر ہے ۔ جس وقت کسی اپنے سے بڑے پر نظر پڑے اس وقت معلوم ہو کہ ہمارے کمالات کیا وقعت رکھتے ہیں ۔ ایک اور حکایت لکھی ہے کہ ایک گاؤں کا چوہدری اپنے بیٹے کے ساتھ چلا جا رہا تھا راستہ میں بادشاہ کا لشکر پڑا دیکھا اس کی صولت اور حشمت دیکھ کر ڈر گیا اور آگے جانے کی ہمت نہ ہوئی ۔ لڑکے نے کہا ابا آپ کیوں ڈرتے ہیں اگر بادشاہ ہے تو کیا ہوا آپ بھی اپنے گاؤں کے چوہدری ہیں ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) میں ایسا ویسا ہوں ۔ (2) یہ سورت کا ۔ (3) میں یہ ہوں میں وہ ہوں کے دعوے