ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
ذات پیش نظر ہوتی ہے اس وقت دوسروں کا اور اپنا وجود کالعدم معلوم ہوتا ہے اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ ایک شخص اگر کسی خیال میں منہمک ہو تو اس کو دوسری تمام چیزوں کی طرف مطلق التفات نہیں ہوتا اگر کوئی اس کو آواز دیتا ہے تو وہ نہیں سنتا بلکہ بعض اوقات خاص خیالوں میں اس قدر انہماک ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی سر کے پاس آ کر آواز دے تو مطلق خبر نہیں ہوتی اس کیفیت میں وہ شخص محاورے میں مجازا کہہ سکتا ہے کہ لاموجود (1) الا الامر الفلانی لیکن ظاہر ہے کہ یہ کہنا واقع کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنی کیفیت کے اعتبار سے اسی طرح وحدۃ الوجود بھی ایک اصلاح ہے صوفیا کی کہ وہ اپنی اس قسم کی کیفیت وحدۃ الوجود کے عنوان سے مجازا تعبیر کرتے ہیں جس طرح قرآن و حدیث کے محاورات میں مجاز کا استعمال ہوتا ہے اسی طرح اصطلاح تصوف سے بھی ہے کیونکہ وہ بھی قرآن و حدیث ہی سے مستنبط ہے تو خلاصہ وحدۃ الوجود کا یہ نکلا کہ وجودات (2) متکثرہ گویا نہیں ہیں پس حکم وحدۃ (3) مجازا ہوا اسی کو ان اشعار میں حل کیا ہے ۔ اگر آفتاب ست یک ذرہ نیست وگرہفت دریاست یک قطرہ نیست ( اگر سورج ہے تو ان کے آگے ایک ذرہ کے برابر ہے اور اگر ساتوں سمندر ہیں تو ایک قطرہ کے برابر ہیں ۔) چو سلطان عزت علم برکشد جہاں سربجیب عدم درکشد ( جب عزت کا بادشاہ جھنڈا بلند کر دیتا ہے تو سارا جہان عدم کے گریبان میں سر ڈال دیتا ہے ) بلکہ ان اشعار ہی میں غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ موجودات کچھ ہیں ۔ ضرور کیونکہ ذرہ اور دریا کے ساتھ است (4) کا حکم کیا گیا ہے ۔ باقی آگے جو کہا ہے کہ " جہاں (5) سربجیب عدم درکشد " اس سے بھی یہی مراد ہے کہ اس کا وجود کالعدم (6) ہو جاتا ہے ۔ ایک دوسرے موقع پر اس سے بھی زیادہ صاف عنوان سے بیان کیا ہے لکھتے ہیں ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) سوائے فلاں چیز کے اور کچھ موجود نہیں ۔ (2) بہت سے وجودات اور ہر ہر چیز کا وجود (3) ایک ہونے کا حقیقت میں نہیں مجازی کہنے سے ہے کہ ان کے سامنے گویا نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ (4) میں کہا گیا ہے تو کچھ ہیں (5) سارا جہان عدم کے گریبان میں سر ڈال لیتا ہے (6) مثل نہ ہونے کے کہ وجود ہے تو مگر مثل نہ ہونے کے ہے ۔