ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
وعلی نحن اقرب الیھ من حبل الورید ( ہم اس کی طرف شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں ) حکایت : حضرت بایزید بسطامی نے خدا تعالی کو خواب میں دیکھا عرض کیا کہ یا رب دلنی علی اقرب طرق الیک کہ اے خدا مجھے آپ تک پہنچنے کا وہ راستہ بتلا دیجئے جو سب سے زیادہ قریب کا ہو ۔ سبحان اللہ کیسے سچے رہبر تھے کہ ہمارے لئے کتنا سہل راستہ تحقیق کر گئے ۔ یہ آج کل جو لوگ آسانی سے منزلیں طے کرتے چلے جا رہے ہیں انہیں حضرات کا طفیل ہے ۔ غرض خواب میں عرض کیا اے خدا مجھے قریب کا راستہ بتلا دیجئے ۔ ارشاد ہوا کہ یا ابا یزید دع نفسک و تعال کہ پندار (1) اور خود بینی چھوڑ دو پھر راستہ سیدھا ہے بے خطر چلے آؤ اس مضمون کو عارف شیرازی نے ترجمہ کیا ہے فرماتے ہیں ۔ میاں (2) عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست تو خود حجاب خودی حافظ از میاں بر خیز حقیقت میں سچ کہا ہے صاحبو اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ کے پاس دولت حب خداوندی ضرور ہے ۔ اس کے علاوہ اس کا ایک بدیہی ثبوت بھی ہے کہ ہم لوگ اپنے خیال میں جس کو دین سمجھتے ہیں اگر کسی کو اس کے خلاف دیکھتے ہیں تو ہم کو اس پر کس قدر طیش آتا ہے کہ اس کے درپئے آزادر ہو جاتے ہیں اور دل کو اس سے نفرت ہو جاتی ہے ۔ آخر یہ نفرت اور وحشت کیوں ہے اس لئے کہ وہ طریق جس کو ہم دین سمجھتے ہیں ہمارا محبوب ہے کیونکہ وہ ہمارے خیال میں خدائی راستہ ہے جو کہ خدا نے ہم کو بتلایا ہے ۔ پس ہماری محبت کی ایسی مثال ہے جیسے کہ راکھ کے نیچے چنگاری دبی ہوتی ہے کہ اگر اس کو چھیڑا اور کریدا نہ جائے تو وہ نظر بھی نہیں آتی لیکن وہی چنگاری جب راکھ سے باہر نکلتی ہے تو شہر کے شہر جلا دینے کو کافی ہوتی ہے ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) اپنے کو کچھ سمجھنا اور اپنے کو دیکھنا (2) عاشق و معشوق یعنی انسان و خدا کے درمیان کوئی بھی چیز حائل نہیں ۔ حافظ تم خود ہی اپنے لئے حجاب و رکاوٹ بن رہے ہو بس درمیان سے نکل جاؤ یعنی خود کو نیست کر دو خواہشات اور اپنے کو کچھ سمجھنا فنا کر دو ۔