ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
دیکھئے گورنر جنرل کو کثیر التعداد رقم ہر مہینہ ملتی ہے حالانکہ بظاہر ان کو کوئی ایسا بڑا کام نہیں کرنا پڑتا ۔ لیکن محض اس لئے کہ ان کا کام دماغی کام ہے ۔ تو حضرات اہل اللہ پر جو گزرتی ہے اور جو دماغ سوزی ان کو کرنی پڑتی ہے اگر آپ پر وہ گزرے تو چند روز میں جنوں ہو جائے اور یہی سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ اہل اللہ پر اپاہج ہونے کا الزام بھی بالکل غلط ہے ۔ وہ ہرگز اپاہج نہیں ہوتے ہاں وہ بدن کے اعتبار سے اپاہج ہیں ۔ سو یہ فخر ہے کہ ان کی یہ شان ارشاد خداوندی میں مذکور (1) ہے احضروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضربا فی الارض تو یہ عدم استطاعت مایہ فخر ہے نیز یہ خود کہتے ہیں کہ ما (2) اگر قلاش دگر دیوانہ ایم مست آں ساقی و آں پیمانہ ایم یہ اگر طفیلی ہیں تو اسی کے طفیلی ہیں اور ان کا جسم گو معطل ہے لیکن ان کی روح ایک بہت بڑے کام میں ہے ان کی روح نے اس بار گراں کو اٹھایا ہے جس کے اٹھانے کی پہاڑ بھی تاب نہیں لا سکے اور زمین آسمان سے بھی نہیں اٹھ سکا ۔ چنانچہ ارشاد ہے لو (3) انزلنا ھذا القرآن علی جبل لرایتھ خاشعا متصدعا من خشیۃ اللہ اور دوسری جگہ ارشاد ہے انا (4) عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال فابین ان یحملنھا و اشفقن منھا و حملھا الانسان تو جس کی روح اتنا بڑا بار گراں اٹھائے ہوئے ہو اپاہج کیسے ہو سکتا ہے ۔ کسی نے خوب کہا ہے ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) جو خدا کی راہ میں روک دیئے گئے ہیں اور زمین میں سفر کی طاقت نہیں رکھتے یعنی اللہ تعالی نے ان کو دین کے کاموں میں محبوس کر رکھا ہے ۔ اس لئے وہ دنیا کے کاروبار میں نہیں لگ سکتے اور دین کا کام سب مسلمانوں کے لئے ہے کہ سب کا دین سنبھالتے ہیں ۔ سب کو لازم ہے کہ ان کی دنیوی ضرورت پوری کریں ۔ جیسے ڈاکٹر صحت کو اور وکیل اس کے حق سنبھالنے میں اور سب ان کو دیتے ہیں کوئی ان کو اپاہج نہیں کہتا حالانکہ وہ کوئی کاروبار نہیں کرتے تو کیا دین سنبھالنا صحت اور مالی حق سنبھالنے سے کم سمجھ رکھا ہے ۔ (2) ہم اگر مفلس ہیں اور اگر ویرانے ہیں تو اس ساقی اور اس پیمانہ کے مست ہیں (3) اور اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو تم اس کو خدا کے خوف سے عاجز اور پھٹتا ہوا دیکھتے ۔ (4) بیشک ہم نے امانت ( اللہ تعالی اور بندوں کے حقوق کی ذمہ داری ) کو سب آسمانوں ۔ زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو اس کے اٹھانے سے انکاری ہو گئے اور اس سے ڈر کھا گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا ۔