ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
حکایت : حضرت شبلی بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک سبزی فروش صدا لگاتا ہوا آیا کہ الخیار العشرۃ بدانق جس کے معنی یہ ہیں کہ دس ککڑیاں ایک دانق (1) کے عوض ۔ لیکن حضرت شبلی نے سن کر ایک چیخ ماری اور رونے لگے اور فرمایا کہ جب دس پسندیدہ (2) آدمیوں کی یہ قیمت ہے تو ہم گنہگار کس شمار میں ہیں ۔ ان کا ذہن منتقل ہوا خیار کے دوسرے معنی کی طرف یعنی نیک لوگ ان لوگوں کے دل میں ہر وقت وہی بات رچی رہتی ہے حضرت حاجی صاحب فرماتے ہیں ۔ بسکہ (3) در جان فگار و چشم بیدارم توئی ہر کہ پیدا می شوداز ودر پندارم توئی اور یہ صرف شعراء کے کلام ہی سے استدلال نہیں بلکہ حدیث شریف سے ثابت ہے حدیث میں آیا ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں خطبہ فرما رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کچھ کھڑے تھے اور کچھ بیٹھے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اجلسوا یعنی بیٹھ جاؤ اس ارشاد کو سن کر جو شخص جس جگہ تھا اسی جگہ بیٹھ گیا حتی کہ ایک صحابی اس وقت مسجد میں داخل ہوئے تھے ارشاد نبوی سن کر فورا جوتیوں کے پاس ہی بیٹھ گئے حالانکہ جانتے تھے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو جگہ پر پہنچ کر بھی نہیں بیٹھے ۔ لیکن محض اس وجہ سے کہ حضور کا ارشاد ہے اور تمہارے کانوں میں پڑا ہے اگرچہ تم بظاہر مظاطب نہیں لیکن خطاب محبوب کو سننے والے تو ہو لہذا بیٹھ ہی جانا چاہیے ۔ تو آپ لوگ جامی اور شبلی کو بھی جانے دیجئے ۔ خود حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ درد دل کا اور محبت کا مقتضاء یہ ہے کہ احتمال پر بلکہ مشابہت احتمال پر بھی اپنے کو مخاطب سمجھے ۔ اگرچہ اپنے مخاطب ہونے کا یقین نہ ہو بلکہ مخاطب نہ ہونے کا بھی یقین ہو غرض جس طرح آپ چاہیں ثابت سمجھیں حدیث سے یا شعراء کے اقوال سے ہمارا مقصود ہر طرح حاصل ہے ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) چھ رتی چاندی کا سکہ (2) خیار کے دوسرے معنے خیر عمدہ و پسندیدہ لوگوں کے تھے ۔ تو مطلب یہ بھی بن سکتا ہے کہ نیک و پسندیدہ دس لوگ ایک دانق کے برابر ہیں ۔ بس عشق نے اس سے چوٹ کھائی ۔ (3) میری زخمی روح اور جاگتی رہنے والی آنکھ میں صرف تو ہی تو ہے جو کوئی دور سے ظاہر ہوتا ہے سمجھتا ہوں کہ تو ہی ہے