الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
میں لیلی کے بارے میں صبح كو ہوگیا، پانی کو پکڑنے والے کی طرح کہ جس سے انگلیوں کی کشادگی خیانت کرتی ہے۔ (۵) متنبی نے ہجو میں کہا ہے ؎ جب وہ بات کرتے ہوئے اشارہ کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ بندر ہے جو قہقہہ لگارہا ہے، یا ایک بوڑھیا ہے جو اپنے منہ پر چپت مار رہی ہے۔ (۶) سری رفاء نے کہا ہے ؎ میرا ایک کمرہ ہے گوہ کے بل کی طرح، میں اس میں ٹھہرتا ہوں، وہ بہت تنگ ہے ، اس کے دونوں کنارے قریب قریب ہوکر تنگ ہوگئے ہیں، ـــــــــــ جب میں اس میں داخل ہوتا ہوں تو اس کو اپنے جسم کا سانچہ خیال کرتا ہوں نہ تو اس میں میں اپنے پیر پھیلا سکتا ہوں اورنه پنڈلی۔ (۷) اور ابن المعتز نے کہا ہے ؎ وہ ایسا تالاب ہے جس کی موجوں کو حرکت دیتا ہے ہواؤں کا چلنا اور بادصبا کا گذرنا، -- جب سورج اس کے اوپر روشن ہوتا ہے تو تم خیال کروگے کہ ایک زرہ ہے جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔ (۸) سعید بن ہاشم خالدی نے ایک قصیدہ کہا ہے جس میں اس نے اپنے غلام کی تعریف کی ہے ؎ وہ غلام نہیں ہے لیکن وہ تو بیٹا ہے، بے نیاز محافظ نے مجھے عطا کیا ہے،-- اس نے اپنی حسن خدمت کے ذریعہ میری کمر کو مضبوط کردیا ہے، تو وہ میرا ہاتھ بھی ہے، ذراع بھی اور بازو بھی ہے۔ (۹) معری نے بوڑھاپے اور جوانی کے بارے میں کہا ہے تو مجھے بتا بوڑھاپے کی کونسی چیز تجھے ناگوار گذری، اس لئے کہ بوڑھاپے کی خرابی کا مجھے کوئی علم نہیں ہے، کیا یہ کہ وہ دن کی روشنی کی طرح روشن ہوتا ہے، یا موتیوں کے چمکنے کی طرح چمکتا ہے، یا اس کا محبوب کے دانت کی طرح ہو نا نا پسند ہے۔ اور تم میرے سامنے جوانی کی فضیلت اور جوانی میں موجود پر رونق اور خوبصورت منظر بیان کرو، كیا اس کے، دوست کو دھوکا دینا، یا اس کا بد كرداری سے محبت کرنا یا یہ کہ وہ ادیب کی زندگی کی طرح ہے۔ (۱۰) اور عنترہ کی طرف منسوب کچھ اشعار یہ ہیں ؎ میں کالی پیشانی والی عورت کا بیٹا ہوں، گویا وہ بھیڑیا ہے جو گھر کے گوشوں میں پلا بڑھا ہے، ـــــــــــ اس کی