الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
شاعر یہ چاہتا ہے کہ ممدوح کی حالت اور دوسرے بادشاہوں کی حالت بیان کرے، اور حالت بیان کرنا بھی تشبیہ کی ایک غرض ہے۔ اور متنبی کا شعر تاریکی میں شیر کی آنکھوں کو انتہائی سرخی اور چمک کے ساتھ متصف کررہا ہے، یہاں تک کہ جو ان آنکھوں کو دور سے دیکھے گا تو ان کو کسی مقیم جماعت کی آگ خیال کرے گا، اگر متنبی تشبیہ کا ارادہ نہ کرتا تو یوں کہتا ’’بیشک شیر کی دونوں آنکھیں سرخ ہیں‘‘ لیکن وہ تشبیہ کی طرف اس لئے مجبور ہوا تاکہ وہ اس سرخی کی مقدار اور اس کی زیادتی کو بیان کرسکے، اور یہ بھی تشبیہ کی ایک غرض ہے۔ اور بہرحال آیت کریمہ پس وہ بتوں کی عبادت کرنے والوں کی حالت بیان کررہی ہے، اور یہ بیان کررہی ہے کہ یہ لوگ جب اپنے معبودوں کو پکارتے ہیں، تو وہ انہیں کچھ بھی جواب نہیں دیتے ہیں، اور یہ پکار انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتی، -- اور اللہ تعالی نے چاہا کہ اس حالت کو لوگوں کے ذہنوں میں جمادیں اور راسخ کردیں تو ان بت پرستوں کو تشبیہ دی اس شخص کے ساتھ جو پانی پینے کے لئے اپنی ہھیلیوں کو پانی کی طرف پھیلائے لیکن صاف ظاہر ہے کہ وہ پانی اس کے منہ تک نہیں پہنچ پاتا ہے، اس لئے کہ وہ اس کی انگلیوں کے درمیان سے نکل جاتا ہے جب تک اس کی ہتھیلیاں کھلی ہیں، پس اس تشبیہ کا مقصد مشبہ کی حالت کو پختہ کرنا ہے، اور یہ مقصد اس وقت ہوتا ہے جب مشبہ امر معنوی ہو، اس لئے کہ نفس معنویات کا اس طرح یقین نہیں کرتا جس طرح وہ حسیات کا یقین کرتا ہے، تو نفس کو مطمئن کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ابو الحسن انباری کا شعر اس قصیدہ کا ہے جس نے عربی ادب میں صرف اس وجہ سے شہرت حاصل کرلی ہے کہ اس میں ایسی چیز کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کی قباحت اور اس سے نفرت پر لوگوں کا اتفاق ہے اور وہ سولی ہے، پس وہ تخت سولی پر سولی زدہ کے پھیلے ہوئے دونوں ہاتھوں کو -- جب کہ اس کے ارد گرد لوگوں کا ہجوم ہو -- سولی زدہ کی زندگی میں اس کے ہاتھوں کو مانگنے والوں کو دینے کے لئے پھیلانے کے ساتھ تشبیہ دے رہا ہے -- اور اس تشبیہ کی غرض تزیین ہے، اور عام طور پر یہ قسم مدح، مرثیہ، فخر اور ایسی چیز کا وصف بیان کرنے میں استعمال ہوتی ہے جس کی طرف دلوں کا میلان ہوتا ہے۔ اور آخری شعر میں اعرابی اپنی بیوی سے متعلق ناراضگی اور تکلیف کے بارے میں کلام کررہا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی بیوی کے لئے وجود سے محرومی کی بددعا کررہا ہے، پس کہتا ہے ’’لاکانت‘‘ اللہ کرے وہ نہ رہے ــــــــــ