الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
سرو کے درخت میں ان کی مثال ہے، اس میں حسن ورونق تو ہے لیکن اس میں پھل نہیں ہے۔ (۱۱) تہامی شاعر نے کہا ہے ؎ زندگی ایک نیند ہے، اور موت بیداری ہے، اور انسان ان دونوں کے درمیان چلتا پھرتا ایک خیال وتصور ہے۔ (۱۲) ایک دوسرے شاعر نے ایک روتی ہوئی عورت کا حال بیان کرتے ہوئے کہا ہے ؎ گویا کہ آنسو اس کے رخسار پر، شبنم کے باقی ماندہ قطرے ہیں انار کے پھل پر۔ (۱۳) اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے -- آپ ان لوگوں کے سامنے اس شخص کی خبر بیان کیجئے جس کو ہم نے اپنی آیات عطا کیں، پس اس نے ان سے روگردانی کی، تو شیطان اس کے پیچھے لگ گیا پس وہ گمراہ لوگوں میں سے ہوگیا، اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیات کے ذریعہ بلندی عطا کرتے ، لیکن وہ دنیا کی طرف مائل ہوگیا، اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑگیا پس اس کی مثال کتے کی سی مثال ہے، اگر تم اس کو دانٹ دپٹ کروگے تو وہ ہانپے گا، اور اگر چھوڑدوگے تو بھی ہانپے گا، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، پس آپ واقعہ بیان کردیجئے تاکہ وہ لوگ غور وفکر کریں۔ (۱۴) اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے -- ان منافقین کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے آگ کو جلایا پس جب آگ نے اپنے اردگرد کو روشن کردیا تو اللہ تعالی نے ان کے نور کو سلب کردیا، اور ان کو تاریکیوں میں چھوڑدیا اس حال میں کہ وہ دیکھتے نہیں ہیں، یہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں، یہ لوگ نہیں لوٹیں گے، یا ان کی حالت آسمان کی اس تیز بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں، کڑک اور بجلی ہے، یہ لوگ بجلیوں کی وجہ سے اپنی انگلیاں اپنے اپنے کانوں میں ڈال دیتے ہیں موت کے ڈر سے ، اور اللہ تعالی کافروں کا احاطہ کرنے والا ہے، قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائی کو اچک لے، جب جب بھی ان کے سامنے روشنی ہوتی ہے تو وہ اس میں چلنے لگتے ہیں، اور جب ان پر تاریکی ہوجاتی ہے تو وہ کھڑے ہوجاتے ہیں، اور اگر اللہ تعالی چاہے تو ان کے کانوں اور ان کی نگاہوں کو سلب کرلے، بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ (۱۵) ابو الطیب شاعر نے کہا ہے ؎ مجھے غیرت آتی ہے اس کاچ کے پیالے پر، جو امیر ابو الحسین کے لب پر رواں ہوتا ہے، -- گویا کہ اس پیالے کی سفیدی جب کہ اس میں شراب ہو، ایسی سفیدی ہے جو آنکھ کی پتلی کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔