الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
ترجمہ:- بیشک اللہ کے علاوہ جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے، اگرچہ وہ سب اسکے لئے اکٹھا ہوں، اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے، تو وہ اس سے وہ چیز چھڑا نہیں سکتے ، طالب اور مطلوب دونوں کمزور ہیں۔ اور بہت کم بنی اسرائیل سے خطاب کو آپ پائیں گے مگر اس حال میں کہ اس میں اطناب اور تطویل ہے، اسلئے کہ مدینہ کے یہود اپنے آپ کو علم اور کتاب والا سمجھتے تھے، پس ضد اور ہٹ دھرمی میں حد پار گئے اور قران کریم نے ان کو کم عقلوں کے درجے میں اتار کر ان سے اطناب کے ساتھ کلام کیا، اور اس رائے کی گواہی وہ اسلوب دے رہا ہے جسکو اللہ تعالی نے ان کے بارے میں اور ان کی اپنی کتابوں کی معرفت کی مقدار کے بارے میں اختیار کیا ہے۔ اور ایجاز کے بعض مقامات ہیں جن میں ایجاز بہتر ہوتا ہے جیسے شکر، معذرت چاہنا، تعزیت، عتاب وغیرہ، اور اطناب کے بھی کچھ مقامات ہیں جیسے مبارکبادی دینا، دو فریقوں میں صلح کرانا، قصہ گوئی کرنا، اور عام معاملات میں بات کرنا، اور ان چیزوں میں ذوق سلیم ہی قولِ فیصل ہے۔ دوسری چیز جس میں علمِ معانی بحث کرتا ہے، وہ قرائن کی مدد سے ضمنی طور پر کلام سے مستفاد ہونے والی چیزوں کا جائزہ لینا ہے، اسلئے کہ علم معانی آپ کو بتلائے گا کہ کلام اپنی اصل وضع کے اعتبار سے ایک معنی کا فائدہ دے رہا ہے، لیکن کبھی وہ ایسا نیا معنی بھی دیتا ہے جو سیاق وسباق سے سمجھا جاتا ہے، اور اسکی طرف وہ حالت رہنمائی کرتی ہے جس حالت میں وہ کلام کیا گیا ہے، ــــــــــــ پس علمِ معانی آپ کو بتاتا ہے کہ خبر کبھی اظہارِ حسرت کا فائدہ دیتی ہے، اور امر کبھی عاجز کرنے کا فائدہ دیتا ہے، اور نہی دعا کا فائدہ دیتی ہے، اور استفہام کبھی نفی کا فائدہ دیتا ہے، اسکے علاوہ وہ سب چیزیں جو آپ نے تفصیل سے اس کتاب میں دیکھی ہیں۔ اور علم ِمعانی آپ کو بتاتا ہے کہ خبر کبھی خالی الذھن کے سامنے تاکید کے ساتھ، اور کبھی منکر مخاطب کے سامنے بغیر تاکید کے لائی جاتی ہے، (کلام کے ظاہری تقاضے کے برخلاف) بلاغت کی کسی انوکھی غرض ومقصد کے سبب جسکا متکلم ارادہ کرتا ہے۔ اور اسی طرح علمِ معانی آپ کی رہنمائی کرتا ہے کہ کوئی ادیب کبھی قصر میں مختلف طریقے اختیار کرتا ہے، جیسے وہ قصرِ اضافی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، مبالغہ کی چاہت کے لئے، پس نیک فال لینے والا کہتا ہے ؎