الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
طرف اللہ کا رسول ہوں، تاکہ جو زندہ ہے اسکو ڈرائے، اور کافروں پر حق بات ثابتهوجائے ،پس تم اسلام لاؤ، سلامت رہوگے اور اگر تم نے انکار کیا تو مجوس کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔ اور جب آپؐ نے دومۃ الجندل کے حاکم اکیدر کو خط لکھنا چاہا تو بھاری بھرکم الفاظ لائے، اور عمدہ نادر کلمات استعمال کئے پس فرمایا مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّٰہهِ لِأُکَیْدِرٍحِیْنَ أَجَابَ إِلَی الْإِسْلَامَ وَخَلَعَ الْأَنْدَادَ وَالْأَصْنَامَ، إِنَّ لَنَا الضَّاحِیَةَ مِنَ الضَّحْلِ وَالْبُوْرَ وَالْمَعَامِيَ وَأَغْفَالَ الْأَرْضِ وَالْحَلْقَةَ وَالسِّلَاحَ وَلَکُمُ الضَّامِنَةُ مِنَ النَّخْلِ وَالْمَعِیْنُ من الْمَعْمُوْرِ، لَاتُعْدَلُ سَارِحَتُکُمْ وَلَا تُعَدُّ فَارِدَتُکُمْ وَلَا یُحْظَرُ عَلَیْکُمُ النَّبَاتُ، تُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَۃ لِوَقْتِھهَا، وَتُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَۃ بِحَقِّھهَا عَلَیْکُمْ بِذٰلِكَ عَهْھدُ اللّٰہهِ وَمِیْثَاقُہهُ ترجمہ:- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اکیدر کے نام، جب اس نے اسلام قبول کیا، اور تمام شرکاء اور معبودوں کو اتار پھینکا، اور ہمارے لئے ہوں گی آبادی سے باہر کی عمدہ کھجوریں، بنجر زمین، نامعلوم زمین غیر آباد زمین، زرہ اور عام ہتھیار، اور آبادی کے اندر کے کھجور کے درخت، اور آبادی کے چشمے تمہارے ہوں گے، اور تمہارے مویشیوں کو چراگاہ سے نہیں پھیرا جائے گا، اور تمہارے مقرر سے زائد کا شمار نہیں کیا جائے گا، اور تم پر کھیتی باڑی کو نہیں روکا جائے گا، تم وقت پر نماز پڑھوگے، زکوۃ ادا کروگے، تمہارے اوپر یہ اللہ کا عہد وپیمان ہے۔ اور کلام مقتضائے حال کے مطابق بھی اس ایجاز واطناب میں ہوتا ہے جس میں متکلم تصرف کرتا ہے، پس ایجاز کے بھی مواقع ہیں اور اطناب کے بھی، یہ سب سامع کی حالت کے اعتبار سے اور کلام کے مقامات کے مقتضی کے مطابق ہوتا ہے، پس ایسا سمجھدار جسکو اشارہ کافی ہو اسکے سامنے ایجاز بہتر ہوتا ہے، اور کندذھن یا ہٹ دھرمی کرنے والا، اس سے خطاب کرتے وقت اطناب واستیعاب بہتر ہوتا ہے۔ اگر آپ قران کریم میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ قران جب اعراب یا عرب کو مخاطب بناتا ہے تو پورے طور پر ایجاز اختیار کرتا ہے، اور اشارہ اور کنایہ میں کلام پیش کرتا ہے، اور جب بنی اسرائیل سے خطاب کرتا ہے، یا ان کی حکایت کرتا ہے تو اطناب وتطویل اختیار کرتا ہے، پس مکہ والوں سے ایجاز کے ساتھ خطاب کرنے کی مثال اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے ـــــــــــ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوْا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئاً لَّا يَسْتَنقِذُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (حج ۷۳)