الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
جاننے کو طلب کرنے کانام ہے، اور استفہام کا حرف الف اور باء کے پہلے دو خانوں کی مثالوں میں ’’ ہمزہ‘‘ ہے اور جیم کے خانے کی مثالوں میں ’’هھل‘‘ ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ دونوں اداتوں کے درمیان معنی اور استعمال کے اعتبار سے فرق جان لیں۔ آپ ’’الف ‘‘کے خانے کی مثالوں میں غور کریں جہاں اداتِ استفہام ’’ ہمزہ‘‘ ہے، تو آپ کو معلوم ہوگا سب مثالوں میں متکلم کلام میں شامل نسبت جاننا چاہتا ہے، لیکن وہ دو چیزوں میں تردد کررہا ہے، اور ان میں سے ایک کی تعیین طلب کررہا ہے، اس لئے کہ پہلی مثال میں مثلاً وہ جانتا ہے کہ سفر عملاً واقع ہونے والا ہے، اور یہ بھی جانتا ہے کہ مخاطب یا اس کے بھائی دونوں میں سے ایک کی طرف منسوب ہے، اسی لئے وہ نسبت کو معلوم کرنا نہیں چاہتا ہے، بلکہ وہ کسی ایک کو معلوم کرنا چاہتا ہے، اور مسئول کی طرف سے وہ منتظر ہے کہ وہ اس ایک کی تعیین کردے اور اس کی اس پر رہنمائی کرے، اسی لئے اس کا جواب تعیین کے ذریعہ ہوگا، پس اس سے کہا جائے گا مثلاً ’’اخي‘‘ ـــــــــ اور دوسری مثال میں سائل کو یہ معلوم ہے کہ شراء یابیع دونوں میں سے کوئی ایک مخاطب کی طرف عملاً منسوب ہے، لیکن اس کو تردد ہے، پتہ نہیں کہ شراء ہے یابیع ہے، پس ایسی صورت میں وہ نسبت کو نہیں معلوم کررہا ہے، اس لئے کہ یه تو اس کو معلوم ہے، لیکن وہ اس ایک کی تعیین طلب کررہا ہے، اسی لئے اس کا جواب تعیین سے ہوگا اور اس کے جواب میں کہا جائے گا مثلاً ’’بائع‘‘ ـــــــــ اسی طرح اس خانے کی باقی مثالوں میں کہا جائے گا۔ اگر آپ اس خانے کی مثالوں میں اس ایک چیز میں غور کریں گے جس کے بارے میں سوال کیا گیا ہے، اسی طرح آپ کے سامنے پیش ہونے والی دوسری تمام مثالوں میں غور کریں گے تو آپ اس مفرد (وہ ایک چیز) کو ہمیشہ براہ راست ہمزہ کے بعد پائیں گے، چاہے وہ مسند الیہ ہو جیسے پہلی مثال میں، یامسند ہو جیسے دوسری مثال میں، یامفعول بہ ہو جیسے تیسری مثال میں، یا حال ہو جیسے چوتھی مثال میں، یا ظرف ہو جیسے پانچویں مثال میں، یا اس کے علاوہ ہو، اور آپ اس کا ایک مقابل بھی پائیں گے جو ’’ أَمْ ‘‘ کے بعد مذکور ہوگا جیسے مثالوں میں دیکھ رہے ہیں، اور کبھی یہ مقابل حذف بھی کردیا جاتا ہے جیسے أَ أَنْتَ الْمُسَافِرُ، أَمُشْتَرٍ أَنْتَ، وَقِسْ عَلٰی هٰھذَا ۔ اور ’’ ب‘‘ کے خانے کی مثالوں میں دیکھیں جہاں ادات استفہام’’ ہمزہ‘‘ ہی ہے، تو آپ محسوس کریں گے کہ یہاں معاملہ’’ الف‘‘ والے خانے کی مثالوں کے برعکس ہے، اس لئے کہ یہاں متکلم نسبت کے ثابت ہونے اور نسبت کی نفی کے درمیان متردد ہے، پس متکلم نسبت سے ناواقف ہے، اسی لئے وہ نسبت کا سوال کررہا ہے، اور